ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2016 |
اكستان |
|
ہوتی چلی جائے گی، اِن ہی کوششوں کا نام اب ''سلوک وتصوف'' پڑ گیا ہے۔ صحابہ نے چلہ کشی کیوں نہ کی ؟ دورِ صحابہ میں اِحسان کی کیفیت جنابِ رسول اللہ ۖ کی خدمت میں صرف صحبت کی برکت سے حاصل ہوجاتی تھی ،آپ کے اَنوار سے دل کی گندگی دُور ہوجاتی تھی اور'' حضور'' حاصل ہوجاتا تھا لیکن زمانہ جیسے جیسے گزرتا گیامحنت اور ریاضت کی ضرورت بڑھتی گئی، غیر اللہ کا تعلق اور دُنیا کی محبت کی وجہ سے جو میل کچیل دل میں بڑھ گیا اُسے دُور کرنا پڑا، جناب ِ رسول اللہ ۖ کا اِرشاد ہے : لِکُلِّ شَیْئٍ صِقَالَة وَصِقَالَةُ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ ہرچیز کے صاف کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی چیز ضرور ہوتی ہے جس سے اُس کی گندگی اور زنگ دُور کیا جاتا ہے اور دلوں کی صفائی کے لیے اللہ تعالیٰ کاذکر ہے۔ سلوک و تصوف : اِس ذکر سے دل کی صفائی کا جو کام کیا جاتا ہے اُس سے حضور حاصل ہوجاتا ہے اور اُس کا نام ''سلوک'' ہے۔اِس کے لیے مختلف طریقے اِختیار کیے گئے ہیں '' نقشبندیہ'' کے یہاں ذکر آہستہ آہستہ ہے '' قادریہ'' اور'' چشتیہ'' کے یہاں ذکر با لجہر ہے (ذکرجہری سے دل بہت جلد صاف ہو جاتا ہے) ''سہروردیہ'' کے یہاں وظائف و نوافل بہت ہیں ''شاذلیہ'' دُرود شریف کی بہت کثرت پر زور دیتے ہیں مگر آخر میں سب ایک جگہ آکر جمع ہوجاتے ہیں اور وہ ہے مراقبہ ذاتِ باری کایعنی حضور واِحسان حاصل ہو جائے اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ۔ بہر حال دل کی صفائی کے جو طریقے ہیں وہی سلوک ہیں، سلوک وتصوف کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ حصول اِحسان کا نام ہے جسے قرآنِ مجید میں بار بار کہا گیا ہے، مشائخ کے نزدیک اِحسان کا کم اَز کم مرتبہ ''ملکہ یاداشت'' ہے یعنی دل میںایسی قوت اور اِتنا رُسوخ پیدا ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہو سکے، اِس کے بھی مراتب ہیں بعض اِس درجہ ترقی کر جاتے کہ کسی وقت اُس کی یاد سے غافل نہیں