ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2016 |
اكستان |
|
ہوتے، سوتے جاگتے چلتے پھرتے ہرحال میں یاد رکھتے ہیں (لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَة وَّلَا بَیْع عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ) جنابِ رسول اللہ ۖ کی صحبت سے ایسی ''یاد'' حاصل ہو جاتی تھی کہ کہیں رہیں دُنیا کے کسی کاروبار میں مشغول ہوں اُس کی یاد سے غافل نہیں ہوتے تھے۔ ''یاد'' دو طرح کی ہوتی ہے : ایک لفظ اللہ اللہ یعنی'' اِسم ذات'' کی یاد لفظ اللہ، الرحمن وغیرہ اِسم ہے، یہ کم مرتبہ کا ذکر ہے ۔ دُوسرا ذکر'' مسمیٰ'' کا ذکر ہے،'' مسمٰی'' ذاتِ مقدسہ ہے جو رازق ہے، جس نے آسمان و زمین پیداکیا ہے، ذات اور مسمیٰ کا ذکر اصلی اور اعلیٰ درجہ کا ذکر ہے جو بہت محنت سے حاصل ہوتا ہے۔ اِجازت کب دینی چاہیے : جب قلب میں اِس کا رُسوخ پیدا ہو جاتا ہے تو اِسے ''ملکہ یاد داشت ''کہتے ہیں اِس کے بعد ذکر سے غفلت نہیں ہوتی،جب یہ ملکہ یاد داشت کسی اللہ کے بندے میں پیداہوجاتاہے تواُسے اِجازت دے دی جاتی ہے ،میں آج مندرجہ فہرست ١٦ بنگال و آسام کے، ایک بخاری صاحب اور ٨بہار کے لوگوں کو اِجازت دیتا ہوں جنہوں نے محنت کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا ہے مگر اِس سے آدمی میں کبر اور گھمنڈ نہیں پیدا ہوناچاہیے، عبادت میں ہمیشہ کوشش کرتے رہناچاہیے جتنابھی آگے بڑھیں گے اُتناہی ڈرنا ضروری ہوگا ( فَلَا یَأْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ ) اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اُس کی رحمت مانگنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا خوف و خشیت پیدا ہونی چاہیے جناب ِ رسول اللہ ۖ اِنتہائی تقدس کے باجود سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے خوف کھایا کرتے تھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رات کے وقت تہجد پڑھتے میں آقائے نامدار ۖ کے سینے سے ایسی آواز آتی تھی جیسے ہانڈی کے پکنے سے آتی ہے اِس طرح حضور ۖ راتوں کو رویا کرتے تھے۔ کسی وقت مطمئن نہیں ہونا چاہیے، ہر وقت ڈرنا چاہیے جب تک اِیمان پر خاتمہ نہ ہوجائے، کسی کو حقارت سے نہ دیکھے سب سے مِل جل کررہے محبت کے ساتھ رہے، جنابِ رسول اللہ ۖ کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے، یاد ِباری تعالیٰ سے غافل نہ ہو۔