ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2016 |
اكستان |
|
کا مانا ہوا نہایت سمجھ دار غلام تھا، تجارت میں اِس کے برابر مکہ میں کوئی غلام بھی ہو شیار اور تجربہ کار نہ تھا مزید بر آں اُس کے پاس دو ہزار اَشر فیاں بھی نقد جمع تھیں۔ حضرت صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہ نے اِس سودے کو بخوشی منظور فرما لیا اور تقریبًا سیر دو سیر چاندی اپنی طرف سے دینی کی اور اِس قیمت میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خرید کر حضور ۖ کی خدمت میں حاضر کیا اور بلال رضی اللہ عنہ کی تمام تکلیفوں اور اپنے خریدنے کی کیفیت آپ کی خدمت میں مفصل بیان کی اور اِس کے بعد عرض کیا کہ آپ گواہ رہنا میں نے اللہ کو خوش کرنے کے واسطے بلال کو آزاد کر دیا آپ نہایت ہی خوش ہوئے۔ اِسی طرح آپ نے سات غلاموں کوجو اِسلام کی وجہ سے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا رہے تھے خرید کر محض خدا کے خوش کرنے کو آزاد کر دیا اور تمام سر مایہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھنے کے بعد اپنانہ سمجھا۔ تاریخ میں لکھاہے کہ حضرت اَبو بکر رضی اللہ عنہ جب ہجرت کے لیے حضور ۖ کے ساتھ تشریف لے گئے تو یہ تمام اَخراجات کرنے بعد اُن کے پاس چالیس ہزار کی رقم موجود تھی جو حضور ۖ پر اور آپ کے فرمانے کے بموجب ہجرت کے بعد چند عرصہ میں کل کا کل محض اللہ کو خوش کرنے کے لیے خرچ کر دیا اور جس وقت حضرت اَبو بکر رضی اللہ عنہ کا تمام مال حضور ۖ کے فرمانے کے مطابق خرچ ہو گیا تو آپ بالکل فقیر رہ گئے اور آپ کے پاس بدن کے کپڑے تک نہ رہے تب ایک روز ایک کملی کو کُرتے کی طرح گلے میں ڈال کر حضور ۖ کے پاس آئے، یہ کملی جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی اور کانٹوں سے اِس کو گونتھ کر بدن پر پہن رکھا تھا۔ ابھی آپ حضور ۖ کی خدمت میں حاضر تھے کہ یکایک جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور آنحضرت ۖ سے دریافت کیا کہ اَبو بکر رضی اللہ عنہ تو بڑے مالدار تھے، کیا اُن کے پاس کوئی کُرتہ بھی نہ رہا جو اِس حال میں آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں ؟ آنحضرت ۖ نے فرمایا اِنہوں نے اپنا تمام مال مجھ پر اور میرے کہنے پر خرچ کر دیا اور اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھا۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا اللہ تعالیٰ نے اَبو بکر کو سلام فرمایا اور پوچھا ہے کہ کیا اَبو بکر مجھ سے اِس تنگی اور فقیری کی حالت میں بھی اُسی طرح راضی ہے جس طرح پہلے راضی تھا ؟ حضرت اَبو بکر