ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
کے بعد یمامہ میں مسیلمہ کذاب کا فتنہ ظہور پذیر ہوا اور بہت سے لوگ مرتد ہوگئے توبھی ثمامہ اور اُن کے متبعین نے اِرتداد کی راہ نہیں اِختیار کی،وہ پکڑپکڑکر مسیلمہ کے جھوٹے دعویٔ نبوت پر اِیمان لانے والوں کو سمجھاتے اورچیخ چیخ کر لوگوں کو کہتے کہ تم اِس تاریکی سے بچوجس میں روشنی کا شائبہ تک نہیں ہے،اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے یہ فتنہ اپنے متبعین کے لیے لعنت و محرومی کا سبب ہے اورنہ ماننے والوں کے لیے وقتی آزمائش ہے لیکن جب اُن کے اِس اعلانِ عام کے باوجود مرتدین نے اُن کی بات نہیں مانی تو ثمامہ اپنے لوگوں کولے کر علا بن حضرمی کے پاس چلے گئے اور پھر مسیلمہ اور اُس کی جھوٹی نبوت کو ماننے والوں کی اچھی طرح خبر لی۔ ایک اور واقعہ : جب آپ نے مکہ فتح کرلیا اور مسلمان اللہ تبارک و تعالیٰ کی خاص نصرت اور مددکی بدولت مکے میں داخل ہوگئے تووہاں پہنچنے کے بعد اَوّلاً تو آپ نے عفوِعام کا اعلان کردیا مگر کچھ ایسے لوگ تھے جو ماضی میں اِسلام اور پیغمبر اِسلام کی مخالفت اور اِیذا رسانیوں میں بڑانام پیدا کیے ہوئے تھے اور اُنہوں نے مسلمانوں کو بھی طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائی تھیں،ایسے لوگوں کے بارے میں آپ نے اعلان یہ کیا کہ وہ یاتو مکہ چھوڑ کر نکل جائیں یا مسلمان اُنہیں جہاں بھی دیکھیں قتل کردیں،اُن کے لیے اُن کے سنگین جرائم کی وجہ سے معافی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، ایسے ہی لوگوں میں سے ایک صفوان بن اُمیہ بھی تھے،جب اُن کو معاملے کی بھنک لگی تو وہ چھپ گئے بلکہ اُنہوں نے گھبراہٹ کے عالم میں خودکشی کا اِرادہ کرلیا،اِتنے میں اُن کے چچازاد بھائی عمیر بن وہب جمحی آپ کی خدمت میں آئے اور اُنہوں نے آپ سے کہا اللہ کے رسول صفوان اپنی قوم کا سردار ہے اور وہ اپنے آپ کو سمندر میں غرق کرکے ہلاک کرنے جا رہاہے،آپ اُسے اَمان دے دیں،نبی پاک ۖ نے اُن کی یہ بات سن کر اپنا عمامہ مبارک اُتارا اور اُن کے سپرد کردیا،یہ اِس بات کی علامت تھی کہ آپ نے صفوان کو اَمان دے دی،عمیر عمامہ لیے ہوئے سیدھے صفوان کے پاس پہنچے اور اُن سے کہامیرے ماں باپ تجھ پر وارے جائیں ،میں تمہارے