ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
ہے کہ دُوسرے سے سُنوں (پڑھنے میں الگ لطف ہوتا ہے سننے میں الگ) آپ نے تلاوت شروع کی سورۂ نساء کا پاؤ سے کچھ زیادہ پڑھا، ایک آیت(فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا) پر پہنچے تو آنحضرت ۖ نے فرمایا بس کافی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا تو آقائے نامدار ۖ کے آنسو جاری تھے۔ آپ کاآنحضرت ۖ کے گھر بہت آنا جانا رہتا، حضور ۖ نے آپ کو یہ علامت بتلادی تھی کہ جب پردہ اُٹھا ہوا دیکھو تو آسکتے ہو آواز دینے اِطلاع کرنے اور اِجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے آپ کی والدہ صاحبہ بھی حضور ۖ کے مکان میں بہت آیا جا یا کرتی تھیں۔ حضرت اَبوموسٰی اَشعری رضی اللہ عنہ جب یمن سے آئے تو حضرت اِبن مسعود رضی اللہ عنہ کا حضور ۖ کے مکان پرکثرت سے آنے جانے سے کافی دن یہی سمجھتے رہے کہ حضور اکرم ۖ کے رشتہ دار ہیں۔ غرض حضور اکرم ۖ کے بہت بڑے محبوب اور معتمد علیہ تھے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور ۖ ایک چٹائی پر آرام فرما رہے تھے جب بیدار ہوئے تو جسدِ اَطہر پر چٹائی کی بناوٹ کا اَثر تھا، بدن مبارک پرنشان پڑ گئے تھے، آپ کی طبیعت پر بڑا اَثر ہوا اور عرض کیا کہ حضور ہمیں حکم دیتے تاکہ جناب کے لیے عمدہ فرش بچھاتے، آقائے نامدار ۖ نے اِرشاد فرمایا : مَا لِیْ وَلِلدُّنْیَا ١ مجھے دُنیا سے کیا واسطہ، میری اور دُنیا کی مثال توایسی ہے جیسے کوئی سوا رہو اور سفر کر رہا ہو اور وہ کسی درخت کے سایہ تلے سُستا کر پھر چلا جائے اور درخت کوچھوڑ جائے۔ غور کیجیے ! اِس مثال میں بھی خاص لطافت ہے، وہ یہ کہ سوار آد می چھوٹے سفرمیں زیادہ سامان ساتھ نہیں لیتا، یہ اُس زمانہ کا بھی دستور تھا تو دُنیا کا سفر بھی گویا آپ ۖ نے مختصر وقت کا بتلایا اور تشبیہ بھی سوار کے سفر سے دی یعنی آدمی اگر آخرت پر نظر رکھے توبہت ہی کم سامان کافی ہو سکتا ہے۔ دُنیا گزارے کی جگہ ہے محبت کی نہیں : آقائے نامدار ۖ نے مختلف موقعوں پر مختلف مثالوں سے یہ سمجھایا ہے کہ دُنیا محبت کے ١ مشکوة شریف کتاب الرقاق رقم الحدیث ٥١٨٨