ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
اُنہوں نے پورے زور و شور سے اِسلام کی شبیہ کو داغدار کرنے کی مہم جاری رکھی اور آج کے اَبلاغی وسائل کی بہتات اور بے پناہ کثرت کے دور میں وہ پہلے سے بھی زیادہ زور و شور سے اپنی یہ ناپاک مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا دین ِمسیحی میں قتال کا تصور نہیں ؟ قبل اِس کے کہ ہم اِسلام پرعیسائی مشنریز کی جانب سے تشدد پسندی و اِنتہا پسندی کے اِلزامات کا تحقیقی جواب دیں،مناسب سمجھتے ہیں کہ اِس خیال اور عام طورپر پھیلے ہوئے تصور کی حقیقت واضح کردی جائے کہ مسیحیت مطلقًا جنگ و جدال اور قتال کا اِنکار کرتی ہے،عیسائیوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ اِنجیلِ متیٰ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی جانب جو یہ قول منسوب ہے کہ ''تم یہ مت سمجھوکہ میں زمین میں صلح و سلامتی قائم کرنے کے لیے آیا ہوںبلکہ میں تو تلوار لے کر آیا ہوں، میں اِس لیے آیاہوں کہ اِنسان کو اُس کے باپ کے خلاف کھڑاکردُوں،بیٹی کو اُس کی ماں کے خلاف اورچوپایوں کو چرواہوں کے خلاف، اِنسان کے دُشمن اُس کے گھر والے ہی ہوتے ہیں،جو شخص بھی اپنی ماں یا باپ سے مجھ سے زیادہ محبت کرے تووہ مجھ سے دُور رہے،جو شخص اپنے بیٹے یا بیٹی سے مجھ سے زیادہ محبت کرے وہ بھی مجھ سے دُوررہے،جو شخص اپنی صلیب نہ لے اور میری اِتباع نہ کرے وہ مجھ سے دُور رہے، جس نے زندگی کو پالیا(یعنی اپنے لیے اُسے گزاردیا)اُس نے دراصل اپنی زندگی کو گنوادیا اور جس نے میری خاطر اپنی زندگی گنوادی توگویااُس نے اپنی زندگی کے مقاصد کو پالیا۔'' (باب ١٠ ،آیت:٣٥) اِس کا آخر ہم کیا مطلب نکالیں ! ہم نام نہاد عیسائیت کے علم برداروں کے قول کومانیں اور اِنجیل کی تکذیب کریں یا اُن کو جھوٹا سمجھیں اوراِنجیل کے بیان کو صحیح اور سچ مانیں ! ! ! یہودیت اور تشدد پسندی : جہاں تک بات توراة کی ہے تو اُس کے اَندر تو ابھی بھی بے شمار ایسے مقامات ہیںجہاں