ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
کو اپنے درس کے لیے منتخب کیا۔ صحیح بخاری کی وجہ اِنتخاب تو ظاہر ہے کہ وہ بالا تفاق اَصَحُّ کُتُبْ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہْ ہے، رہاسننِ تر مذی کوبقیہ کتب صحاحِ ستہ کی بجائے زیرِ درس رکھنے کی وجہ ،وہ یہ تھی کہ سنن ترمذی کی چند خصوصیات ہیں جو بقیہ کتب صحاحِ ستہ میں نہیں ہیں۔ خصوصیاتِ سنن تر مذی : روایات کوبیان کرنے کے بعد اُس کے درجہ کومصنف ذکر کرتا ہے یعنی صحیح ،حسن، غریب، وغیرہ۔ روات کے سلسلہ میں جرح و تعدیل کرتا ہے، اگر کسی راوی میں کوئی کمزوری ہے تواُس کو ذکر کرتا ہے۔ اَحادیث میں اگر کوئی لفظ نادر غریب الا ستعمال آتاہے تو اُس کے معافی ذکر کرتاہے۔ تعارض روایات کو دُور کرتا ہے، اگر روایات میںالفاظ ِ فقہیہ ہوں تو مذاہب اَربعہ کو ذکر کرتا ہے اور مَاھُوَالرَّاجِحُ عِنْدَہ کو بیان کرتا ہے اور اگر کوئی راوی معروف بالکنیہ ہے تو اُس کا عَلَمْ ذکر کرتا ہے اُن کے قبائل کو ذکر کرتاہے، وجوہ اِستدلال کو ذکر کرتا ہے، اِس میں مکررات بہت کم ہیں، اِس کے آخر میں کتاب العلل ہے، چونکہ ترمذی میں منافع بہت زیادہ ہے اور اِس کی ترتیب اَبواب فقہیہ پر ہے، اِس کے مصنف شافعی المسلک ہیں، علمائِ ہند حنفی ہیں، اِس وجہ سے اُن روایات پر جو مذہب ِحنفی کے خلاف ہیں مکمل بحث کرنی پڑتی ہے اور حدیث کو فقہی اَنداز سے پڑھانے کے لیے سنن ِتر مذی کے علاوہ اور کو ئی کتاب نہیں، اِس لیے سنن تر مذی کو بقیہ کتب ِ صحاح پر فو قیت دی گئی ہے۔ سلسلہ سند ِ حدیث : روایت ِ اَحادیثِ نبویہ علیٰ صا حبہاالصلٰوة والتسلیم کے سلسلہ میں اِتصالِ سند من الراوی اِلی النبی ۖ ضروری ہے، اہلِ ہند کا سلسلہ سندِ حدیث حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ پرختم ہوجاتا ہے اور پھر حضرت شاہ ولی اللہ سے اِمام بخاری و اِمام تر مذی رحمہما اللہ تک ہے اورپھرتیسرا سلسلہ اِمام بخاری واِمام ترمذی رحمہما اللہ سے آقائے نا مدار جنابِ محمد رسول اللہ ۖ تک پہنچتاہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد حسین اَحمد مدنی نوراللہ مر قدہ کا سلسلہ سند اِس طرح ہے :