ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
کیا اِسلام کی اِشاعت میں جبر و اِکراہ کا دخل ہے ؟ ( حضرت مولانا اِسرار الحق صاحب قاسمی ،اِنڈیا ) موجودہ صدی میں مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر اور عالمی منظر نامے پراُن کی شبیہ خراب کرنے کے لیے جو منظم سازشیں ہورہی ہیںاُن ہی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ عیسائی مشنریز اور ایسی تما م قوتیں جو اِسلام کو ایک آفاقی اور تاریخ کے ہر دور اور ہر موڑ پراِنسانیت کی رہبری و رہنمائی کرنے والے مذہب کے طورپر تسلیم نہیں کرتیں،وہ وقتًا فوقتًا اِسلام کی بنیادی تعلیمات ،قرآنِ کریم، اَحادیث کے معتدبہ حصے اور نبی پاک ۖ کی سیرتِ پاک کواپنے اَوچھے اوربکواس اِشکالات و اِعتراضات کا نشانہ بناتی رہتی ہیں،اُن ہی اِشکالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نعوذ باللہ محمد ۖ نے اپنے دین کو پھیلانے اور عام کرنے کے لیے تلوار کا سہارا لیا اور اُن کی زندگی میں جتنے لوگ بھی اِسلام میں داخل ہوئے وہ اپنی مرضی وخواہش سے نہیںبلکہ مسلمانوں کے زورِ شمشیر سے داخل ہوئے حالانکہ تاریخی حقائق اُن کی اِس بیہودہ گوئی کاصاف اور صریح طورپر اِنکار کرتے ہیں۔ اگرآپ تبلیغِ اِسلام کے اِبتدائی اَدوار اور پھرآپ کی مکی و مدنی زندگی کا منصفانہ مطالعہ کریں تو آپ کو صاف طورپر محسوس ہوگا کہ اِسلام کی اِشاعت کا آغاز اَجنبیت اورکمزوری کے دور میں شروع ہوا اور پھر جب مسلمانوں نے مدینہ کی جانب ہجرت کی اور کفار و مشرکین اور یہودیوں کی متعدد جماعتوں سے جو جنگیں ہوئیںوہ سب اِنتہائی مجبوری میں ہوئیںورنہ ہمارے نبی جیسا صلح پسند اور اَمن جو اِنسان رُوے زمین نے آج تک نہیں دیکھا،ہر موقع پر آپ نے کشت و خون اور جنگ و جدال کو ٹالنے کی کوشش کی مگر جب فریقِ مخالف مرنے مارنے پر ہی آمادہ نظر آیا تب ہی آپ نے اپنے اَصحاب کو تلوار اُٹھانے کی اِجازت دی،پھر دورانِ جنگ بھی آپ نے اپنے مجاہدین کواِنسانی اُصول واقدار کا حددرجہ پابند رکھاکیونکہ آپ پوری اِنسانیت کے لیے رحمت و رأفت بناکر بھیجے گئے تھے اور اِنسانی حرمت آپ