ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
بہت سے خوش نصیب اَفراد نے اِیمان قبول بھی کیا،اُن میں اَشرافِ قوم بھی تھے اور کم درجے کے لوگ بھی اَلبتہ نچلے درجے کے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی اور اِس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ نبی پاک ۖ کے پاس اِتنا مال و دولت نہیں تھا کہ جسے لوگوں میں تقسیم کرکے اُنہیں اِسلام کی طرف راغب کرتے،یہی وجہ ہے کہ اِسلام لانے کی پاداش میں مسلمانوں اور اُن میں سے بھی فقرا ء اور غرباء اور کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو کفارِ مکہ کی جانب سے سخت اَذیتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن چونکہ اُنہوں نے کسی ظاہری لالچ یا خوف کی وجہ سے نہیںبلکہ دل کی رضا سے اِسلام قبول کیا تھااِس لیے اُن کے اِیمان و یقین میں ذرابھی لغزش نہیں آئی بلکہ اُنہیں جتنا زیادہ تکلیفوں سے گزاراگیااُن کی قوتِ اِیمانی میں اُتنا زیادہ اِضافہ ہوتا گیا،یہی وجہ ہے کہ ہمیں اُس دور میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ جس میں کسی شخص نے اِسلام لانے کے بعد اُس دین سے نفرت اور ناپسندیدگی کی وجہ سے رِدّت اِختیار کرلی ہو یا اُسے کفار و مشرکین کے مکرو فریب نے اپنے دین اور مذہب سے بیزار کردیا ہوبلکہ اِس کے برخلاف ہمیں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں بعض مسلمانوں کو جب اِسلام کے راستے میں سخت سے سخت عذاب دیاگیااُنہیں آگ میں ڈالاگیا یا جلتی ہوئی ریت پر کھلے بدن گھسیٹاگیاتو اُنہیں ایک خاص قسم کی رُوحانی لذت ٹھنڈک اور حلاوت محسوس ہوئی۔ (٢) پھر جب کفارِ مکہ کی جانب سے اَذیتوں کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتاگیا اور مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنانہایت ہی ناممکن ہوگیاتو اللہ کے نبی نے بعض کمزور اور مصیبت زدہ مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کی اِجازت دے دی چنانچہ مسلمانوں کی ایک جماعت نے حبشہ کی جانب ہجرت کرلی پھر اُس کے بعد ہجرتِ کبریٰ یعنی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کا واقعہ رُونما ہوا، اِس میں نبی پاک ۖ کے ساتھ تمام صحابہ کرام بھی شامل تھے جنہوں نے محض اِسلام کی حفاظت اور دین کی تبلیغ و اِشاعت کی خاطر اپنے گھر بار،آل اَولاد اور اَموال و جائیداد تک کو چھوڑ دینا گوارہ کرلیا،مدینے کے قیام کے دوران شروع کے ایک ڈیڑھ سال تک آپ وہاں کے لوگوں کو اِنتہائی پُر اَمن طریقے سے اور حکمت وموعظت کے ساتھ دین کی تبلیغ کرتے رہے،مدینے کے بہت سے لوگ اور قبیلے مدینے میں آپ کی