ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
بوسینیا ،چیچنیا، ہرزے گوینا اورمتعدداَفریقی ملکوں میں جو مسلمانوں کی جان،مال اور عزت وآبرو پر بے تحاشا ڈاکے ڈالے گئے وہ بھی صلیبیت کے ہی نام پر تھے حالانکہ اِن سب کے بر خلاف اِسلام نے اپنے تمام تر تاریخی مراحل میں اپنی صاف شفاف اور روشن تعلیمات کے ذریعے اِنسانی قلوب کو مسخر کیا۔ عقائد، عبادات، اَخلاق، معاملات، جنگ و اَمن کے دوران دی جانے والی اُس کی ہدایتیں،غلبہ اور فتح کے دوران اُس کی انسانیت نوازی پر مبنی تعلیم اوراُس کے مبنی براِنصاف سیاسی نظام نے لوگوں کو ہر دور میں اپنی جانب مائل کیا اور وہ اُس کی صداقت و حقانیت کے قائل ہوکر حلقہ بگوشِ اِسلام ہوتے رہے،اِسلامی قلمرو میں جو دُوسرے مذاہب کو ماننے والی قومیں رہتی تھیںاُنہیں پوری اَمان ملتی تھی،ایسی ،جیسی اُن کے اپنے ہم مذہب بادشاہ بھی نہیں دیتے تھے۔ اِسلامی دعوت کی تاریخ اور فرضیت ِجہادکے اَسباب : اِسلام کے مزاج میں سلامتی اور صلح جوئی کا عنصر شامل ہے تو پھر اُس نے جہاد کو فرض کیوں قرار دیا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اِس کا جواب ہمیں اِسلام کے بالکل اِبتدائی دور،نبی پاک ۖ کی سیرتِ مبارکہ،خلفاے راشدین ،دیگر اَصحاب و تابعین اور موجودہ اِسلامی تاریخ سب کو سامنے رکھتے ہوئے تلاش کرنا ہوگا،ویسے یہ تو ایک واضح سچائی ہے کہ باوجودیکہ کم و بیش ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے دُنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی لیکن آج بھی اُن کی تعداددُنیا کی مجموعی آبادی کا زیادہ سے زیادہ ٢٢فیصدہے یعنی سات اَرب میں سے ایک اَرب ستر کروڑ کے لگ بھگ،یہ بھی اِس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ مسلمانوں نے دین کی اِشاعت میں زبردستی سے کام نہیں لیاکیونکہ اگر وہ چاہتے تو کم اَزکم اپنی سیاست کے عروج کے زمانے میں تو ایسا کرہی سکتے تھے کہ دُنیا بھر کی قوموں کو شمشیر کی نوک پر اِسلام کے دائرے میں داخل کرلیتے مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ (١) بعثت کے بعد نبی پاک ۖ مکہ میں تیرہ سال تک مقیم رہے،اِس دوران آپ نے مکہ والوں کو توحید،رسالت اور قرآنی و اِسلامی تعلیمات کو قبول کرنے کی دعوت دی،اِس دوران مکہ کے