ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
جنگ و جدال اور قتال کی مشروعیت کی بات کی گئی ہے،مزیدیہ کہ دین ِموسوی کے حوالے سے جو شدت پسندی کی باتیں عام طورپر مشہورہیں اورواقعتا بھی اِس شریعت میں جو کم سے کم گنجائش اور سہولت کے مواقع پائے جاتے تھے(اگرچہ اُن کی کچھ وجہیں بھی تھیں)اُس سے بھی ہم اچھی طرح واقف ہیں اور اِن دونوں معروف سماوی شریعتوں کے خلاف اِسلام نے جنگ اور قتال کے جو اُصول متعین کیے اور اُن پر جس اہتمام کے ساتھ خود ہمارے نبی پاک ۖ اور آپ کے اَصحاب اور مجاہدین اِسلام نے سختی کے ساتھ عمل کیا اور جس طرح سے قرنِ اَوّل میں مسلمانوں میں اِنسانی اَقدار کے تحفظ و تکریم کی تابناک مثالیں پیش کیںوہ اپنے آپ میں لا زوال ہیں اور اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اِسلام کی اِشاعت میں تلوار یا زور زبردستی کا اَدنیٰ دخل بھی نہیں رہا۔ اِ س کے بر خلاف عیسائیت کے ماننے والوں کی پوری تاریخ بے قصور اِنسانوں کے خون سے گلنار ہے،ماضی میں رُومیوں نے بے شمار اِنسانوں کو تہِ تیغ کیا،متعددیورپی قوموں نے اِنسانی خون کو پانی کی طرح بہایا،گیارہویں بارہویں صدی عیسوی میں جو سلسلہ وار جنگیں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی تھیںوہ خود عیسائیوں نے ہی بھڑکائی تھیں،چپے چپے سے اُن کی اَفواج نے جمع ہوکراِسلامی مملکت و خلافت پر حملے کیے،مسلمانوں کو قتل کیااور اِس اَندوہناک اِنسانیت کُش مہم کی پشت پر اِعلانیہ طورپر اُن کے مذہبی رہنما ،راہب اورپاپائوں کا ہاتھ رہا۔یہ وہ تاریخی حقائق ہیںجن کا اِنکار نہ تو مسیحی علماء کر سکتے ہیں اور نہ ہی مستشرقین۔ پھربیسویں صدی میں جو پوری دُنیامیں صلیبی حکومت قائم کرنے کے جنون میں دُنیا کے طول وعرض پر حملے کیے گئے،وہ سب بھی تاریخ کے اَوراق میں محفوظ ہی ہیں،تاریخ میں برطانیہ، رُوم، اِٹلی، فرانس اوراَمریکی اِتحادکے ترجمان لارڈلنبی کا وہ قول بھی محفوظ ہے جس میں اُس نے١٩١٨ء میں پہلی عالمی جنگ کے اِختتام اور بیت المقدس پر قبضے کے موقع پر کہا تھا کہ صلیبی جنگوں کا اِختتام تو اَب ہواہے ۔اِسی موقع پرفرانسیسی ترجمان نے دمشق میں اِسلامی قائد سلطان صلاح الدین اَیوبی کی قبرکے پاس جاکر یہ کہا تھا کہ صلاح الدین ! ہم واپس آگئے۔