ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
جگہ جگہ عدالتیں لگی ہوئی تھیںبھپرے ہوئے لوگ اِنسانوں کو روکتے اُن کے ہاتھ دیکھتے اگر وہ نرم ہوتے اور اُن پر محنت کے نشان نہ ہوتے تو اُنہیں قتل کردیتے، اُن کی قمیض کا کا لر اور آستین دیکھتے اگر اُن پر میل نہ ہوتا تو گردن اُڑا دیتے، بادشاہ کو جس طرح کھینچ کر اُس بلند مقام پر لایا گیا جہاں ایک بہت بڑا چھرا اُس کی گردن کاٹنے کا منتظر تھا وہ عجیب منظر تھا جب یہ سروں کی فصل کٹ رہی تھی تو کوئی آنکھ اَشکبار نہ تھی پورے فرانس میں جشن کا ایک سماں تھا رقص گاہوں میں رقص جاری تھے اور شراب خانوں میں جام لنڈھائے جارہے تھے۔ اِنقلاب ِفرانس کی تاریخ لکھنے والے اِن تمام واقعات کو اِسی طرح بیان کرتے چلے آئے ہیں وہ سب اِسے عوام کا غصہ غضب اور اِنتقام تصور کرتے ہیں یہاں تک کہ وِلڈیورینٹ جیسا شخص اِنقلابِ فرانس کے دوران اِس طرح لوگوں کی گردنیں اُڑانے کا ایک جواز تحریر کرتا ہے وہ اپنی کتاب Heroes Of History میں لکھتا ہے کہ '' اِنگلینڈ میں فرانس سے زیادہ غربت و اَفلاس تھی بلکہ اِنگلینڈ کے لوگ تو پرانے چمڑوں کو اُبال کر سوپ تیار کر کے زندگی گزار تے تھے لیکن وہ سب لوگ فرانس کے عوام کی طرح سڑکوں پر نہیں نکلے اُنہوں نے اُمراء اورُ رؤسا کا قتل نہیں کیا اِس کی وجہ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ اِنگلینڈ میں فرانس کے بادشاہوں کی طرح عوام کی غربت کا مذاق اُڑانے والا کوئی نہ تھا کسی ملکہ نے یہ الفاظ نہیں بولے تھے کہ '' لوگوں کو اگر روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے '' یا پھر اِنگلینڈ میں فوج کے کسی سپہ سالار نے فرانس کے روہان کی طرح یہ فقرہ نہیں کہا تھا کہ '' لوگ بھوکے ہیں تو پورے فرانس میں اِس قدر گھاس اُگی ہوئی ہے وہ کیوں نہیں کھاتے '' یہ وہی شخص ہے جسے لوگوں نے پکڑا اُس کے منہ میں گھاس بھری اور پھر گردن کاٹ