ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
عالَمِ کفر اپنی تنگ نظری اور قدامت پسندی کی وجہ سے پرانے مذہبی خول سے اپنے کو باہر نہیں نکال سکا، رُوحانی طور پر مردہ یہ لوگ آج بھی جبر کر کے لوگوں کو اپنے پرانے اور بے بنیاد دینوں میں داخل ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ برما اور نیپال میں بدھ متوں ،مقبوضہ کشمیر اور ہندوستان میں ہندؤوں ،فلسطین میں یہودیوں ،بوسنیا، وسطی اَفریقہ،رُوس ، یورپ اور اَمریکہ میں عیسائیوں نے عدم برداشت کی بنیاد پر عورتوں بچوں سمیت لاکھوں کے قتل ِعام کا بازار گرم کیا،خود اَمریکہ بہادر اپنے عیسائی نیٹو اِتحادیوں اور بے ضمیر مسلم حکمرانوں کی قیادت کرتے ہوئے اَفغانستان عراق لیبیا میں تیس سے چالیس لاکھ کے لگ بھگ مسلمانوں کا خونِ ناحق کرچکا ہے اور اب ملک ِشام میں بڑے دھڑلے سے یہ عمل جاری ہے وہاں سے بے گھر ہونے والے مسلمانوں کو تنگ نظر یورپ اور اَمریکی ریاستوںنے پناہ دینے سے اِنکار کیا ہے، ترکی اور شام کی سرحد پر ایک کیمرہ مین یہودن صحافی اپنے ماں باپ کی طرف لپکتے سات آٹھ سالہ پناہ گزیں بچے کو لانگڑی دے کر گرادیتی ہے اِس کے اِس سنگ دلانہ عمل کو الیکٹرانک میڈیا پر دِیکھنے والے دیکھ چکے ہیں، غرض تیس چالیس برسوں سے حالیہ قتل ِ عام کا سلسلہ پوری دُنیا میں صرف اور صرف مسلمانوں کے ساتھ بر تا جا رہا ہے اِس کے باوجود اَقوامِ متحدہ سمیت پوری عیسائی اور یہودی دُنیا اپنے اِس'' جرم'' کو ''خود ساختہ قانون'' کے سانچے میں ڈھال کر'' قیامِ اَمن'' کا عمل قرار دے رہی ہے جبکہ گھر کی شہادت یہ ہے کہ '' عراق پر جنگی کارروائی جنگی جرم تھا ''چھوٹی اِنٹیلی جنس '' کی بنیا دپر اَمریکہ کا اِتحادی بن کر عراق کے ''بے گناہ'' عوام کے ''قتل ِ عام'' پر معافی مانگتا ہوں۔'' (سابق وزیر اعظم برطانیہ ٹونی بلئیر ) جامعہ مدنیہ جدید کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا خالد محمود صاحب مدظلہ نے ١٦نومبر کے روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والی ایک تحریر کی طرف توجہ دلائی جو اَوریا مقبول جان کے قلم کی جاندار اور برموقع تخلیق ہے اِفادۂ عام کی غرض سے اِس کو بعینہ نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے ! ملاحظہ فرمائیں۔