ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
اور تفسیریں کھولے بیٹھی رہتی، کبھی آپ ایک سے ترجمہ سنتے پھر دُوسرے کو اِشارہ فرماتے اور پھر تفسیروں کو پڑھواتے، اَخیر میں حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب محدث دہلوی کے ترجمے کو سنتے، سب کچھ سننے کے بعد آپ ایک آیت کا ترجمہ لکھتے تھے ،پھر دُوسری آیت لیتے اُس کا بھی اِسی طرح چکر چلتاتھا یہاں تک کہ مئی جون کی شدید گرمی میں ڈیڑھ دو بجے تک تین چار آیتوں کا ترجمہ کر پاتے تھے، پھر کھانا کھا کر کچھ دیر آرام فرماتے، ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر صبح کے لکھے ہوئے ترجمے پر نظرثانی فرماتے تھے، کبھی حضرت مولانا سلطان محمود شیخ الحدیث مدرسۂ عالیہ فتح پوری حضرتسَحبَان الہند سے ملنے تشریف لاتے تو اُن کو ملاحظہ کراتے، کبھی مولانا اللہ بخش صاحب ،مولانا ضیاء الحق دیوبندی (حضرت سَحبَان الہند کے اُستاذِ محترم) آتے تو اُن کو سناتے، کبھی حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی (نائب اَمیرِ شریعت) تشریف لاتے تو اُن کو ملاحظہ کرایا، کبھی کوئی اور صاحب دیوبند سے تشریف لاتے تو اُن کو دِکھایا، کوئی صاحب پاکستان سے ملنے جاتے تو اُن کو بھی دِکھایا، غرض اہلِ علم میں جو حضرات بھی کہیں سے تشریف لاتے اُن کو ضرور ملاحظہ کراتے، ہفتے عشرے میں مفتی اعظم حضرت علامہ محمد کفایت اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ کو بھی، جو اِس اِدارے (مُوتَمرالمصنفین) کے نگراں و سر پرست تھے ضرور ملاحظہ کراتے رہتے تھے ۔''(کشف الرحمن ج ١ ص ٥ مطبوعہ کراچی) اُستاذِ محترم حضرت مولانا سیّد اَخلاق حسین قاسمی بھی بعض اَوقات اِس تفسیری مجلس میں ہوتے تھے، حضرت کو جہاں ترجمے میں دِقت ہوتی تو بعض اَوقات مولانا قاسمی کو حضرت مفتی اعظم کے پاس بھیجتے کہ یہ حضرت کو دِکھا کر ترجمہ لکھوا کر لائیں، حضرت مولانا قاسمی نے حضرت مفتی اعظم کی قرآن فہمی پر ایک مضمون تحریر فرمایا ہے جو روزنامہ اَلجمعیة دہلی کے مفتی اعظم نمبر میں موجود ہے اُس مضمون میں اِس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔