ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
حضرت سَحبَان الہند نے دِلی میں اپنے اُستاذِ محترم حضرت مفتی اعظم کی سرپرستی میں ''مؤتَمرُالمصنفین'' قائم فرمایا جس کا مقصد مسلمانوں کے لیے خالص مذہبی کتابیں مہیا کرنا تھا اور اَحادیث ِ مبارکہ کی کتب کے جو اُردو تراجم علمائِ کرام نے کیے تھے اُن کو مروجہ اُردو زبان میں اَز سرِ نو لکھا جائے کیونکہ سابقہ تراجم کی اُرد وغیر مانوس ہوگئی تھی اور اُن سے فائدہ حاصل کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ تیرہویں صدی کے وسط میں حکیم الامت حضرت الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کے خاندان نے قرآنِ کریم کی بہت خدمت کی اور قرآنِ کریم کے ترجمے کیے جو ترجمے کے اِعتبار سے بہترین تراجم شمار کیے جاتے ہیں لیکن اُن کی زبان اِس قدر نامانوس ہوگئی تھی کہ اُن سے قرآن کے مطالب و مفہوم کے سمجھنے میں دُشواری ہونے لگی تھی۔ حضرت مولانا شاہ عبد القادر محدث دہلوی نے اپنے ترجمہ قرآن پر ''موضح قرآن'' کے نام سے مختصر تفسیری حاشیہ لکھا تھا، زمانے کے اُتار چڑھائو کی وجہ سے اِس کی اُردو قدیم ہوگئی تھی اور سمجھنے میں دُشواری ہونے لگی تھی، حضرت شاہ صاحب محدث دہلوی کے بعد بہت ترجمے اور تفسیری حاشیے لکھے گئے لیکن ''موضح قرآن'' کی خوبیاں اور کمالات پردۂ خفا میں رہ گئے اور ''موضح قرآن'' میں جن نکات اور عمیق باتوں کی رعایت رکھی گئی تھی اُس سے عوام تو عوام خواص بھی محروم ہوگئے، حضرت سَحبَان الہند نے اپنے اَحباب کے اِصرار پر یہ اِرادہ بھی فرمایا کہ ''موضح قرآن'' پر ایک تفصیلی تبصرہ کیا جائے اِس طرح آپ کے پیش ِ نظر تین کام تھے۔ (١) حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب کے ترجمے کی وضاحت اور ضروری تبدیلی (٢) ''موضح قرآن'' کی تشریح و توضیح (٣) مشکوة شریف کا ترجمہ و تشریح، جو حضرت شاہ محمد اِسحاق محدث دہلوی کے تلمیذ رشید مولانا نواب قطب الدین خاں مرحوم نے ''مظاہر حق '' کے نام سے کیا تھا اِس ترجمے کی جدید اُردو میں تبدیلی ۔ اِن اُمور کے لیے ''مُؤ تَمرالمصنفین'' کو قائم کیا تھا، اہلِ دہلی میں سے مخیر حضرات نے اِن کاموں میں غیر معمولی دلچسپی لی اِس کے بعد ''وسیع النظر علمائ'' کی تلاش ہوئی جو اُردو زبان پر پورا عبور رکھتے ہوں یہ کام سرمایہ فراہم ہونے سے بھی زیادہ مشکل تھا کیونکہ جو حضرات اُردو زبان پر عبور رکھتے