ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
اُستاذ محترم (حضرت مفتی صاحب) سے اِجازت لے کر مولانا کے گھر جا کر پڑھانا شروع کردیا۔'' (مفتی اعظم کی یاد ص ٣٤٦، ٣٤٧) ایک سال تک اِسی طرح تعلیمی سلسلہ چلتا رہا اور ساتھ میں حضرت سَحبَان الہند تجارت بھی کرتے رہے اور دِن میں مال تیار کرکے شام کو فتح پوری کے بازار میں فروخت کر کے عشاء کے بعد پڑھتے تھے،ایک سال کے بعد آپ نے باقاعدہ مدرسۂ اَمینیہ میں شوال المکرم ١٣٢٨ھ/ اکتوبر ١٩١٠ء میں داخلہ لیا اور شرح مأتہ عامل اور مفید الطالبین کے اَسباق شروع ہوئے، مولانا کی سند میں مندرجہ ذیل کتابیں درج ہیں جو مدرسۂ اَمینیہ میں آپ نے پڑھیں : تفسیر جلالین، تفسیر بیضاوی، بخاری، مسلم،ترمذی،اِبن ماجہ،طحاوی، اَبوداؤد، مشکوة، نحبة الفکر، مختصر القدوری، کنزالدقائق، شرح وقایہ، ہدایہ، اصول الشاشی، نور الانوار، توضیح تلویح، ایسا غوجی، مرقاة، شرح تہذیب، قطبی، ملا حسن، حمداللّٰہ، مناظرہ رشیدیہ، ہدیہ سعیدیہ، میبذی، مختصر المعانی، مطول، شرح مأتہ عامل، ہدایة النحو، کافیہ، شرح جامی، مفید الطالبین، نفحة الیمن، قلیونی، سبعۂ معلقہ اور دیوانِ متنبی۔ مدرسہ سے خارج اَوقات میں مولانا اَحمد سعید صاحب نے اور کتابیں بھی حضرت مفتی اعظم سے پڑھی تھیں جن میں ''فتح الباری'' بھی شامل ہے، اِس طرح یہ ''مولوی اَحمد سعید'' صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ مولوی، ایک فاضل عالمِ دین بن گئے ۔حضرت مفتی اعظم کے فیض ِ صحبت و تربیت نے اِنہیں ایسا سنوارا اور چمکایا کہ ایک شیریں بیان واعظ ہوئے اور ''سَحبَان الہند '' کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اِمام الہند حضرت مولانا اَبو الکلام آزاد رحمة اللہ علیہ نے بھی اُن کے کمال کی داد دی۔اَمیرِ شریعت حضرت مولانا سیّدعطاء اللہ شاہ صاحب بخاری رحمة اللہ علیہ جب دِلی جاتے تھے تو مولانا اَحمد سعید صاحب کے منبر کے پائے سے چپک کر بیٹھ کر بڑی توجہ سے مولانا کی تقریر سنتے تھے، کسی نے شاہ جی سے کہا : شاہ جی ! آپ تو خود ایک خطیب ہیں پھر بھی مولانا اَحمد سعیدکو توجہ سے سنتے ہیں ؟