ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
قاری حافظ محمد یٰسین سکندر آبادی بھی تھے، یہ مدرسۂ حسینیہ میں کبھی کبھی چلے جاتے تھے، مولوی اَحمد سعید سے واقف تھے۔ حضرت مفتی صاحب نے ایک مرتبہ مولانا اَحمد سعید کی تقریر کی تعریف سنی تو اپنے شاگرد سے کہا کہ اِس نوجوان واعظ سے پوچھنا کہ اُس نے کہاں پڑھا ہے اور کہاں تک پڑھا ہے ؟ قاری صاحب موصوف وعظ میں شریک ہوتے ہی تھے، ختم ہونے پر نواجوان کے ساتھ ہولیے، راستے میں پوچھا کہ مولوی صاحب ! آپ نے کہاں پڑھا ہے ؟ قاری صاحب موصوف ایک طالب علم تھے اور نوجوان واعظ کو کو کم سے کم دارُالعلوم دیوبند کا فاضل ترین فیض یافتہ خیال کرتے تھے، اُنہوں نے یہ بھی محسوس نہ کیا تھا کہ اُستاذ محترم نے یہ خدمت کیوں میرے سپرد کی ہے ؟ غرضے کہ مولانا نے قاری صاحب کو اِدھر اُدھر کی باتوں میں اُلجھادیا، اَصل بات کا جواب نہیں دیا ، دُوسرے دِن پھر پوچھا مگر بات کو ٹال دیا، وہ ٹالتے رہے یہ پوچھتے رہے اور آخر نوجوان واعظ نے ایک دِن یہ جواب دیا کہ مولوی صاحب ! آپ یہ بات پوچھتے ہیں تو مجھے شرمندگی ہوتی ہے کہیں پڑھا ہو تو بتائوں، بھئی میں نے تو کہیں نہیں پڑھا اور کچھ نہیں پڑھا اَلبتہ پڑھنے کی آرزو ہے،قاری صاحب موصوف کو یقین نہیں آیا لیکن کچھ عرصے بعد تعلقات بڑھے زیادہ میل جول ہوا تو قاری صاحب کو معلوم ہو گیا کہ واقعی یہ اَن پڑھ ہیں، پھر اُنہوں نے مولانا کو رائے دی کہ آپ مدرسۂ اَمینیہ میں داخلہ لے لیجیے اور علم حاصل کیجیے، مولانا نے کہا کہ بھئی مولوی صاحب ! میں کیونکر پڑھ سکتا ہوں ؟ والد کے اِنتقال کے بعد سے گھر کا سارا بوجھ مجھ پر ہے شادی بھی ہوچکی ہے دِن بھر محنت کرتا ہوں جب کہیں جا کر کام چلتا ہے اور آذوقہ نصیب ہوتا ہے، اِن حالات میں داخلہ لے کر پڑھنے کی فرصت کہاں ؟ مگر اُن کو پڑھانا اور اِن کو پڑھنا مقدر تھا، قاری صاحب نے اپنے