ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
غرباء کو بھی دے دیا۔ حضرت اِمامین(حضرت اِمام حسن و حضرت اِمام حسین) کو بھی ثواب بخش دیا مگر چونکہ لوگوں نے اِس میں طرح طرح کی رسوم کی پابندی کرلی ہے گویا خود اِس کو ایک تہوار قراردے دیا ہے اِس لیے رسم کے طور پر کرنے سے ممانعت کی جائے گی، بِلا پابندی اگر اِس روز کچھ فراخی خرچ میں کھانے پینے میں کردے تو مضائقہ نہیں۔ (٢) شربت پلانا : یہ بھی اپنی ذات میں مباح تھا کیونکہ جب پانی پلانے میں ثواب ہے تو شربت پلانے میں کیا حرج تھا ؟ مگر وہی رسم کی پابندی اِس میں بھی ہے اور اِس کے علاوہ اِس میں اہلِ رِفض کے ساتھ تشبہ بھی ہے، اِس لیے یہ بھی قابلِ ترک ہے۔ تیسرے اِس میں ایک مضمر خرابی یہ ہے کہ شربت اِس مناسبت سے تجویز کیا گیا ہے کہ حضرات ِشہدائے کربلا پیاسے شہید ہوئے تھے اور شربت مسکن عطش(پیاس بجھانے والا) ہے اِس لیے اِس کو تجویز کیا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے عقیدہ میں شربت پہنچتا ہے جس کا باطل اور خلافِ قرآن مجید ہونا فصل دوم میں مذکور ہوچکا ہے اور اگر پلانے کا ثواب پہنچتا ہے تو ثواب سب یکساں ہے، کیا صرف شربت دینے کو ثواب میں تسکین ِعطش کا خاصہ ہے، پھر یہ بھی اِس سے لازم آتا ہے کہ اُن کے زعم میں اب تک شہدائے کربلا نعوذ باللہ پیاسے ہیں یہ کس قدر بے اَدبی ہے۔ اِن مفاسد کی وجہ سے اِس سے بھی اِحتیاط لازم ہے۔ (٣) شہادت کا قصہ بیان کرنا : یہ بھی فی نفسہ چند روایات کا ذکر کردینا ہے۔ اگر صحیح ہوں تو روایات کا بیان کردینا فی ذاتہ جائز تھا مگر اِس میں یہ خرابیاں عارض ہوگئیں : (الف) مقصود اِس بیان سے ہیجان اور جلب غم اور گریہ و زاری کا ہوتا ہے، اِس میں صریح مقابلہ شریعت ِمطہرہ ہے کیونکہ شریعت میں ترغیب ِصبر مقصود ہے اور تعزیت سے یہی مقصود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ مزاحمت شریعت کی سخت معصیت اور حرام ہے، اِس لیے گریہ و زاری کو بھی قصدًا یاد کرکے لانا جائز نہیں اَلبتہ غلبۂ غم سے اگر آنسو آجائیں تو اِس میں گناہ نہیں۔ (ب) لوگوں کو اِسی لیے بلایا جاتا ہے اور ایسے اُمور کے لیے تداعی و اہتمام خود ممنوع ہے۔