ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
اِمام اعظم اَبو حنیفہ رحمةاللہ علیہ کے معاصر بزرگ حضرت سفیان بن عیینہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ''شَیآنِ مَاظَنَنْتُ اَنَّھُمَا یُجَاوِزَانِ قَنْطَرَةَ الْکُوْفَةِ وَقَدْ بَلَغَ الاْفَاقَ، قِرَائَ ةُ حَمْزَةَ وَرَأْیُ اَبِیْ حَنِیْفَةَ ''( تاریخ بغداد ج ١٣ ص ٣٤٧) دو چیزوں کے بارے میں میرا یہ خیال بھی نہ تھا کہ وہ کوفہ کے پُل سے بھی تجاوز کرسکیں گی، مگر وہ تو دُنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئیں، ایک حمزہ کوفی کی قراء ت دُوسری اِمام اَبو حنیفہ کی فقہ ورائے۔ نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب ''ریاض المُرتاض و غیاض الاریاض'' ص ٣١٦ پر سدِّ سکندری کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ''کتاب مسالک الممالک میں لکھا ہے کہ واثق باللہ(خلیفہ عباسی) نے چاہا کہ سدِّ سکندری کا حال معلوم کرے چنانچہ اُس نے اِس کے تفحص کے لیے ٢٢٨ھ میں سلام نامی کو جو چند زبانوں کا واقف تھا پچاس آدمیوں کے ساتھ سامانِ رسد دے کر روانہ کیا، یہ لوگ بلادِ آرمینیہ، سامرہ، ترخان وغیرہ سے گزر کر ایسی سرزمین میں پہنچے جہاں سے سخت بدبو نکلتی تھی، پھر دو روز مزید چل کر ایسی سر زمین میں پہنچے جہاں اِن کو ایک پہاڑ نظر آیاو ہاں ایک قلعہ بھی تھا اور کچھ لوگ اُس میں تھے مگر آس پاس آباد کاری کے نشانات نہ تھے، ٢٧ منزل وہاں سے آگے اور طے کیں اور ایک قلعے پر پہنچے جہاں سے ایک پہاڑ قریب تھا اور اُس کی گھاٹیوں میں سدِّ یاجوج ماجوج تھی اگر چہ اُس کے قریب بستیاں کم تھیں مگر صحرا اور متفرق مکانات بہت تھے، سد مذکور کے محافظ جو ایک جگہ تھے وہ سب مسلمان تھے اور اُن کا مذہب حنفی تھا زبان عربی وفارسی بولتے تھے۔ '' ١ ١ اَنوار الباری ج ١ ص ١٦٧ طبع اِدارہ تالیفات ِ اشرفیہ ملتان