ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
سُوْرَةُ الْہُمَزَہ کی چند آیتوں کا ترجمہ ملاحظہ فرمایئے وہ سرمایہ دار کے خلاف کس شدت سے گرج رہی ہیں۔ ''بڑی خرابی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو پس ِ پشت عیب نکالنے والا ہے اور رُو دَر رُو طعنہ دینے والا ہے ،(یہ وہ مغرور اور متکبر ہے) جس نے سمیٹا مال اور اُس کو گن گن کر رکھا جو سمجھتا ہے کہ اُس کا مال سدا رہے گا اُس کے ساتھ (اُس کی دولت دوام پذیر ہوگی) ہر گز نہیں ! ایسا شخص یقینا پھینک دیا جائے گا '' حُطَمَہْ '' میں اور تم جانتے ہو کہ حُطَمَہْ کیا ہے ؟ وہ آگ ہے جو بھڑ کائی گئی ہے خدا کی طرف سے جو جھانک لیتی ہے دلوں کو، وہ اُن پر بند کردی جائے گی (مونڈ دی جائے گی) لمبے لمبے ستونوں میں۔ '' اِس مضمون کی آیتیں جو مکہ معظمہ کے اُس دور میں نازل ہوئیں۔ قدرتی بات ہے کہ اُنہوں نے اِس مقدس جماعت کے دلوں کو مال و دولت کی محبت سے پاک کر دیا اور یہاں تک نکھار دیا کہ درہم و دینار سے اُن کو ایسی ہی نفرت سے ہوگئی جو اُونٹ اور بھیڑ کی مینگنیوں سے نفرت تھی۔ اِن تعلیمات کے نتیجہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ۖ نے اپنا تمام سرمایہ جو زمانہ تجارت میں کمایا تھا خرچ کر کے فاقہ کو دولت قرار دے چکے ہیں۔ اُن کی رفیقہ ٔ حیاتِ طاہرہ خدیجہ رضی اللہ عنہا جو مکہ کے دولت مندوں میں سب سے اُونچا درجہ رکھتی تھیں اپنی تمام دولت خرچ کر کے فقروفاقہ کو نعمت تصور کر نے لگیں، وفات ہوئی تو ترکہ میں ایک بھی ایسی چیز نہیں ہے جس کا ذکر کیا جا سکے۔ اَبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جن کے پاس اِسلام لانے کے دِن چالیس ہزار کا سرمایہ تھا، جب وہ مکہ سے روانہ ہوئے تو صرف پانچ ہزار باقی تھے اِس عرصہ کے کارروباری منافع کے علاوہ اصل پونجی یعنی پینتیس ہزار صرف ہو چکے تھے۔ اَلبتہ گردن چھڑانے کی ہدایت جو قرآنِ پاک میں کی گئی تھی اُس کے مظاہرے کھلے طور پر سامنے آتے ہیں، کتنے ہی غلام ہیں جن کوخرید کر آزاد کیاگیا، کتنے ہی مقروض ہیں جن کے قرضے اَدا کیے گئے، خدا جانے کتنے بھوکے ہوں گے جن کی ضروریات کا تکفل فرمایا گیا ہوگا۔ حلیمہ سعدیہ