ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
سیرت ِمقدسہ پر نظر رکھنے والا اِس فیصلہ پر مجبور ہے کہ مکی زندگی کے تیرہ سالہ دور میں ایک بنیادی مقصد عمل کو پوری سر گر می کے ساتھ کامیاب بنایا گیا، عام محاورہ کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ کچھ نظریات پیش کیے گئے اور ذہنوں کو اُن کے لیے ہموار ہی نہیں کیا گیا بلکہ اُن نظریات کو ذہنوں میں رچا دیا گیا۔ آج کل دولت، سرمایہ داری اور تقسیم ِ دولت کی بحث ہے اِس مناسبت سے وہی نظریات پیش کیے جا رہے ہیں جن کا تعلق اِس موضوع سے ہے سورۂ بلد اُسی زمانہ میں نازل ہوئی تھی جس کی چند آیتوں کا ترجمہ یہ ہے : ''کیا اِنسان خیال کرتا ہے کہ اُس پر کسی کا بس نہیں چلے گا، کہتا ہے کہ میں نے بیشمار دولت خرچ کرڈالی، میں نے کھپایا مال ڈھیروں ۔(ترجمہ : شاہ عبدالقادر) کیا یہ سمجھتا ہے کہ نہیں دیکھا ہے اُس کو کسی نے، کیا ہم نے اُس کو دو آنکھیں نہیں دیں ؟ زبان اوردو ہونٹ نہیں دیے ؟ اور کیا ہم نے اُس کو دونوں راستے نہیں بتادیے ؟ پس وہ گھاٹی میں سے ہو کر نہ نکلا، آپ کو معلوم ہے گھاٹی کیا ہے ؟ (گھاٹی یہ ہے) چھڑانا کسی گردن کا (مصیبت زدہ غلاموں کو رہائی دلانا) یا کھلانا بھوک کے دِن میں کسی رشتہ دار یتیم کو یا کسی خاک میں رہنے والے مسکین (محتاج ) کو۔'' ١ سورۂ دہر بھی اُسی زمانہ میں نازل ہوئی جس کی چند آیتوں کا ترجمہ یہ ہے اِن آیتوں میں اللہ کے نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے : ''ایسے وقت کہ جب خود اُن کو کھانا محبوب ہوتا ہے اور خود اپنے اَندر اُس کی ضرورت اور طلب محسوس کرتے ہیں اِس کے باوجود وہ مسکین کو، یتیم کو اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اُن کا نصب العین یہ ہوتاہے کہ ہم صرف اللہ کے لیے کھانا کھلا رہے ہیں تم سے ہمیں نہ کوئی بدلہ درکار ہے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہمارا شکریہ اَدا کریں۔'' (سورۂ دہر پارہ ٢٩) ١ سورۂ بلد پارہ ٣٠