ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
١٩٦٢ء میں ایک اور دستور ِ پاکستان تشکیل دیا گیا اور اُس دستور کی دفعہ ٢١٥ میں اعلان کیا گیا کہ ١٩٧٢ء میں ایک کمیشن مقرر کیا جائے جو اَنگریزی کی جگہ اُردو زبان کو جگہ دینے کے لیے سفارشات مرتب کرے لیکن پھر وہی ہوا اور مارچ ١٩٦٩ء کے مارشل لاء نے اِس نو عمر دستور کی بساط لپیٹ دی۔ بعد اَزاں ١٩٧٣ء کے دستور کی مذکورہ بالا دفعہ (١)٢٥١ میں اُردو زبان کے نفاذ کے لیے پندرہ سال طے کیے گئے لیکن اِس عظیم مقصد کے حصول میں تمام حکومتیں آج تک غفلت برتی رہی ہیں اور دستوری تقاضے پورے نہیں کر رہیں ۔جمہوری حق رکھتے ہوئے ہم اپنے حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومتی اَراکین کو قومی مفاد کے پیشِ نظر دستوری تقاضوں کو متعین کرنا چاہیے اور اِن تقاضوں کی اَدائیگی میں اگر حقیقی رُکاوٹیں اور موانعات ہیں تو اُن کی نشاندہی کرنی چاہیے اور یہ بھی بتانا چاہیے کہ اِن موانعات اور رُکاوٹوں کو کیسے دُورکیا جائے ؟ نیز یہ کہ تعصبات، سیاسی مفادات اور مفاد پرست طبقات کو بھی (اگر ہیں تو) نمایاں کرنا چاہیے اور اِن اُمور کے اِظہار کی جرأت ہماری سیاسی قیادت کو حاصل ہونی چاہیے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جمعیة علماء اِسلام کو جب بھی حکومت بنانے کا موقع مِلا اُس نے فوری طور پر دستوری تقاضوں کے مطابق اپنے صوبہ میں قومی زبان اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کر دیا تھا۔ قائد ِ جمعیة مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمود صاحب (م: ١٩٨٠ئ) نے بھی اپنے دورِ حکومت میںاور اَکرم خان دُرانی صاحب نے بھی اپنے دورِ حکومت میں اُردو زبان کو سرکاری زبان کے طورپر رائج کر دیا تھا تو کیا وجہ ہے کہ صوبائی حکومتیں تو محدود وسائل اور رُکاوٹوں کے ساتھ دستوری تقاضے پورے کریں اور وفاقی حکومتیں اِن اُمور کے نہ ہونے کے باوجود دستوری تقاضے پورے کرنے میں پس و پیش سے کام لیں۔ اِن تمام معروضات کے بعد ہمارا مطالبہ ہے کہ دستورِ پاکستان کی صریح خلاف ورزی کو روکا جائے ،قومی زبان ''اُردو'' کو قبول کیا جائے اور تمام تر دستوری تقاضے پورے کیے جائیں، پوری قوم کا بھی یہی مطالبہ ہے اور قومی و ملِّی مفاد بھی اِسی میں ہے۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغْ