ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
''..........اور یہ کہ میں اِسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو برقرار رکھنے کے لیے اُس کی حفاظت اور دفاع کروں گا۔'' اِس حلف نامہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ تمام اَراکین ِ ایوان کی تین بنیادی ذمہ داریاں ہیں : (١) دستور کی بقاء (٢) دستور کا تحفظ (٣) دستور کا دفاع گویا حلف اُٹھانے والا ہر رُکن یہ اِقرار کرتا ہے کہ اِس ایوان کی اور میری ذاتی ذمہ داری ہے کہ میں اِن تینوں اُمور کی فکر کروں اور تینوں کے خلاف جو بھی بات ہو اُس کی اِصلاح کے لیے ہر مؤثر ذریعہ اِختیار کروں۔ اپریل ١٩٧٣ء میں یہ دستور پاس ہوا اور ١٤ اگست ١٩٧٣ء میں نافذ ہوا، اِس دستور کے نفاذ کو ١٤ اگست ١٩٨٨ء میں پندرہ سال مکمل ہوگئے اورآج( ٢٠١٥ء میں) بیالیس سال ہو گئے لیکن دستور کی اِس شق پر عمل در آمد نہ ہو سکا جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم مجموعی طور پر دستور ِ پاکستان کی ١٤ اگست ١٩٨٨ء سے خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ١٤ اگست ١٩٨٨ء کے بعد سے ہر گزرنے والا دِن سیاسی گناہ کا دِن ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ ١٩٧٣ء کے دستور سے پہلے ١٩٥٦ء اور ١٩٦٢ء کے بھی دونوں دستوروں میں اِ س اَمر کو واضح کیا گیا تھا کہ اَنگریزی کی جگہ اُردو کو دی جائے گی، ملاحظہ فرمائیں : ١٩٥٦ء کے دستور کی دفعہ ٢١٤ میں اَنگریزی زبان کی جگہ اُردو زبان کو قومی زبان کے نفاذ کے لیے بیس برس (یعنی ١٩٧٦ء تک) مقرر کیے گئے، ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ دس سال بعد (یعنی ١٩٦٦ء میں) اِس بارے میں سفارشات کی تدوین کے لیے کمیشن مقرر کیا جائے گا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ١٩٥٦ء کا یہ دستور صرف دو سال کی عمر پا کر اَکتوبر ١٩٥٨ء ہی میں منسوخ ہو گیا، اِس کے بعد