ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
پنجاب یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں تعلیم حاصل کی ، ایک ٹی وی چینل نے نہ صرف اُن سے پروگرام کا آئیڈیا لیا ،تمام پروگرامز کا ریسرچ ورک کروایا اور اُس کے بعد یہ پروگرام ایک خوبصورت اور ماڈرن اَداکارہ کو دے دیا جس کا ماس کمیونیکیشن میں کوئی تعلیمی بیک گراونڈ نہیں تھا۔اور تو اور اُسے طے شدہ معاوضہ بھی اَدا نہیں کیا گیا، اِس اِستحصال کی وجہ محض اِسکا سکارف تھا۔اِسی طرح میری کئی دوستوں کو جاب ریکوائرمینٹ کے نام پر دوپٹہ اُتارنے کا بھی کہا گیااور اگر کسی نے اِحتجاج کیا تو اُن کو کہا گیا کہ آپ کو کس نے کہا یہ فیلڈ اپنائیں یعنی اِسلامی جمہوریہ کے میڈیا کی فیلڈ میں مثبت سوچ رکھنے والی با حجاب، با صلاحیت خواتین کی کوئی جگہ نہیں ۔ اَفسوس کا مقام ہے کہ نوکری کے حصول کے لیے اُنہیں مغربی تہذیب کے پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے ۔ ہم فرانس اور مغربی ممالک میں نوکری کرنے والی خواتین کے سکارف اَوڑھنے پر پابندی لگانے پر تو واویلا کرتے ہیں، تو کیا اِسلامی جمہوریہ کے اَندر یہی پابندی موجود نہیں ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو میڈیا پر٩٠ فیصد آبادی کی نمائندہ مشرقی تہذیب کی عکاس خواتین کیوں نظر نہیں آتیں ؟ کیا برصغیر کی تقسیم لااِلہ الا اللہ کی بنیاد پر نہیں ہوئی تھی ؟ جس کے تحت اپنے دینی تہذیب اور ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کا وعدہ کیا گیا تھا، کیا قائد اعظم نے اپنے بے شمار خطابات میں پاکستانی قوم کو اِسی کی خوشخبری نہیں دی تھی ؟ آج وہ وعدے اور خوشخبریاں کہاں گئیں ،یہ صورتِ حال حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور پاکستانی قوم کے لیے بھی۔(روزنامہ نوائے وقت ٢٥اپریل ٢٠١٥ئ) ماہنامہ اَنوار مدینہ لاہور میں اِشتہار دے کر آپ اپنے کاروبار کی تشہیر اور دینی اِدارہ کا تعاون ایک ساتھ کر سکتے ہیں ! نرخ نامہ یرون ٹائٹل مکمل صفحہ 0002 ندرون رسالہ مکمل صفحہ 000 اَندرون ٹائٹل مکمل صفحہ 1500 اَندرون رسالہ نصف صفحہ 500