ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
باوقار اَنداز میں خبریں پیش کرتی تھیں اُس میں حسن اور لباس کی نمائش نہیں ہوتی تھی، پاکستانی ڈرامے ہمارے کلچر کے عکاس تھے ، خواتین مشرقی تہذیب میں رنگی ہوئی ہوتیں اور اُن سادگی سے بھرپور ڈراموں نے اب تک ہمسایہ ملک کی فلم اِنڈسٹری سے بڑھ کر دَاد وصول کی اور اب تک یہ ڈرامے دونوں ممالک کے لوگوں کی اَنمٹ یادوں کا حصہ ہیں لیکن اَفسوس کہ اب پاکستانی سرکاری ٹی وی پر بھی اُسی مغربی اور ہندوانہ کلچر کا راج ہے ، میڈیا عام لوگوں کی رائے عامہ ہموار کرنے کے علاوہ اُن کے رہن سہن کے طریقوں ، اَخلا قی طور طریقوں ، آدابِ معاشرت اوررسوم و رواج پراَثر انداز ہوتا ہے ۔ اب خواتین محض اَیڈور ٹائزمنٹ کا ذریعہ بن چکی ہیں جن کا کام صرف منظر میں رنگ بھرنا ہے ۔ میڈیا اور دیگر پرائیویٹ اِداروں میںنوکری کے لیے صرف ماڈرن اور پر کشش خواتین کی ہی ڈیمانڈ ہوتی ہے، اَخباری اِشتہارات میں یہ ڈیمانڈ جلی حروف میں لکھی جاتی ہے، شاپنگ ،مالز، ہوٹلز، ملٹی نیشنل کمپنیز ، مختلف نوعیت کے پرائیویٹ اِدارے ، این جی اوز اور بینکو ں میں خواتین پینٹ کوٹ اور ٹائی میں دکھائی دینے لگی ہیں جہاں ڈریس کو ڈ نہیں ہے وہاں خواتین کا خوبصورت اور ماڈرن ہونا بے حد ضروری ہے ۔ آجکل پرائیویٹ سیکٹر میں ماڈرن خواتین کو با حجاب اور دوپٹہ اَوڑھنے والی خواتین پر ترجیح دی جا رہی ہے۔ بہت سی با صلاحیت خواتین حالات سے تنگ اور مجبورہو کر اپنے دوپٹے کی قربانی دیتی ہیں جہاں تک سوال آزاد میڈیا کا ہے تو وہاں ہمیں کوئی نیوز اَینکر یا اَینکر پرسن سکارف اوڑھے اور دوپٹہ اَوڑھے مشرقی اور اِسلامی تہذیب کی عکاسی کرتی نظر نہیں آتی، ہماری آبادی کا تقریبًا ٤٩فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے ،اِس وقت خواتین تعلیم کے میدان میں مردوں سے آگے بڑھ گئی ہیں،ہر سال پوزیشن ہولڈرز زیادہ تر لڑکیاں ہوتی ہیں، پاکستان میں ٩٠فیصد خواتین دوپٹہ اَوڑھتی ہیں ۔ ہمارا میڈیا اِس اِنتہائی کم تناسب کی نمائندگی کر رہا ہے۔ ماس کمیونیکیشن پڑھنے والی میری بہت سی دوست جنہوں نے ایک مثبت جذبے کے تحت اِس فیلڈ کو اَپنایا تھا اور اپنی زندگی کے قیمتی سال اِس پر صرف کیے تھے آج اپنے گھروں میں بیٹھی ہیں ، اُن کے اَندر ذہانت اور ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، اُن کا جرم اپنے دین اور اپنی تہذیب سے محبت کرنا ہے اور میڈیا کی اِس غلط ڈیمانڈ پر پورا نہ اُترنا ہے ۔ میری ایک دوست جنہوں نے