ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
لیکن یہاں یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ ''نسمہ'' جو موت کے بعد باقی رہتا ہے، اُس کا مستقر کیا ہے ؟ اِس سلسلے میں کسی عالِم کی کوئی تحریر اَحقر کے حقیر مطالعہ میں نہیں آئی اَلبتہ ایک مرتبہ جب اَحقر نے حضرت علامہ کشمیری سے دریافت کیا تھا کہ آج کل جو ایک فن اِیجاد ہوا ہے کہ اَرواح کو بُلا کر اُن سے بات کی جاتی ہے کیا یہ ممکن ہے ؟ تو حضرت علامہ نے اِس کے جواب میں ایک مفصل تقریر فرمائی تھی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ عالمِ برزخ کا محل بھی یہی سماء واَرض کا علاقہ ہے، یہ رُوحیں اِسی عالَم میں ہیں۔ حضرت اُستاذ سے اَحقر نے دریافت بھی نہیں کیا اور آپ نے تصریح بھی نہیں فرمائی، مگر اَحقر کا گمان ہے کہ حضرت کے پیش ِ نظر اَرواحِ قدسیہ نہیں بلکہ یہ نسمات ہی تھے، یہ نسمہ باقی رہتا ہے اور علامہ اِبن قیم کی تحریر کے بموجب عذاب و ثواب اُس کے ساتھ ہی لگا رہتا ہے اور وہ اُسی میں مبتلا گھومتا پھرتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب کشمیری رحمة اللہ علیہ نے اِس کی مثال پاگل کتے سے دی ہے کہ اُس کا شدید مرض ساتھ لگا ہوا ہے اور وہ گھومتا پھرتا ہے، دُوسروں کو گزند بھی پہنچاتا ہے اَرواحِ خبیثہ کی مثال یہی ہے مگر اَرواحِ طیبہ ایسی حرکتوں سے بالا رہتی ہیں اور اُن کو وہ راحت و سرور حاصل رہتا ہے جس کی پوری حقیقت آخرت میں اُن کے سامنے آئے گی، اُس کے اَثرات یہاں اُن کو عالمِ برزخ میں پہنچتے رہتے ہیں۔ بہر حال اَحقر کی ناقص رائے یہی ہے کہ عالمِ برزخ میں رہنے والا نسمہ ہے اور رُوح کا مستقر عالمِ بالا ہے جیسا کہ اَحادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اَرواحِ اَنبیاء کا مستقر اَعلیٰ علیین، اَرواحِ شہداء کا مستقر جنت کے وہ قندیل ہیں جو عرش میں آویزاں ہیں اور عام مومنین کا مسقرِ اَرواح جنت ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) ۔( رُوح المعانی ج١٥ ص ١٦١ ) اور اَرواح یعنی نسمات کو بُلانا اور اُن سے گفتگو کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، عامِل حضرات کے یہاں اَرواح کو بُلانے اور اُن سے بات کرنے کا عمل بہت پہلے سے چلا آرہا ہے۔ اہلِ یورپ نے بُلانے کے طریقے اپنے طور پر اِیجاد کیے ہیں، عامِل حضرات سورۂ مزمل وغیرہ پڑھ کر رُوح کو حاضر کیا