ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
''وہاں فوق اور تحت باقی نہیں رہے گا بلکہ فوق وہی ہوگا جو حضرت آدم علیہ السلام کے داہنے ہوگا اور تحت وہ جو بائیں ہوگا۔ '' پھر فرماتے ہیں واقعہ معراج چونکہ ایسے عالَم میں ہوا تھا جو عالمِ آخرت کا مشابہ تھا اِس لیے یہاں بھی فوق اور تحت کا مشاہدہ یمین اور یسار سے کرایا گیا ہے۔ پھر آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ : ''دُنیا کا یہ پورا حصہ دوزخ بن جائے گا اور جنت کا حلقہ ساتویں آسمان کے اُوپر سے شروع ہوگا۔قرآنِ کریم میں ہے(عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَھٰی عِنْدَھَا جَنَّةُ الْمَأْوٰی) ۔''( فیض الباری ج٤ ص ١٨١ ) یعنی جنت الماوی سدرة المنتہیٰ کے قریب ہے اور سدرة المنتہیٰ ساتویں آسمان سے اُوپر ہے یا چھٹے آسمان سے شرو ع ہو کر ساتویں آسمان کے اُوپر تک پہنچتا ہے۔ (اَحادیث بخاری و مسلم شریفین) اور اُس کو منتہی اِس لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ عالم ِ بالا اور عالم ِ سافل کے اِنتہا پر ہے، زمین سے صعود کرنے والی چیزیں یہاں تک پہنچ سکتی ہیں آگے نہیں جا سکتیں حتّٰی کہ فرشتے بھی آگے نہیں جا سکتے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اِسی موقع پر آنحضرت ۖ سے عرض کیا تھا اگر یک سر موئے برتر پرم فروغ تجلی بسوزد پرم سدرة المنتہی سے بالا مکمل طور پر'' الغیب ''ہے، فرشتوں کو بھی اُس کا پتہ نہیں۔علیٰ ہذا عالمِ بالا سے نزول کرنے والی چیزیں پہلے یہاں پہنچتی ہیں ۔(رُوح المعانی وتفسیر مظہری وغیرہ) اِس توجیہہ کی بنا پر اَرواحِ طیبہ کا مستقر ساتویں آسمان سے اُوپر ہوگا اور اَرواحِ خبیثہ کا مستقر سجین ہوگا جو تحت الارض تک پہنچتا ہے۔ لیکن علامہ اِبن قیم ''کتاب الروح'' میں فرماتے ہیں کہ : ''اُس عالَم میں جو قیامت سے پہلے ہے جس کو عالمِ برزخ کہا جاتا ہے اَرواح کا کوئی مستقر نہیں ہے، وہ جہاں چاہیں جا سکتی ہیں اور وہ اپنے خاص مستقر پر حساب و کتاب کے بعد پہنچیں گی۔'' (فیض الباری ج ٤ ص ١٨١ )