ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
شاہ صاحب اپنی مشہور تصنیف '' اَلْطَافُ الْقُدْسْ'' میں تحریر فرماتے ہیں : ''نسمہ'' ایک لطیف جسم ہوتا ہے جس کو ''جسم ہوائی'' کہا جاتا ہے وہ اِنسان کے تمام بدن میں سرایت کیے ہوئے ہوتا ہے وہ فنا نہیں ہوتا بلکہ موت کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔'' ١ ''حجة اللہ البالغہ'' میں آپ فرماتے ہیں کہ نسمہ تحلیل ہوتا ہے تو موت طاری ہوجاتی ہے، آپ فرماتے ہیں : وَقَدْ تَحَقَّقَ عِنْدَنَا بِالْوِجْدَانِ الصَّحِیْحِ اَنَّ الْمَوْتَ اِنْفِکَاکُ النَّسَمَةِ عَنِ الْبَدَنِ لِفَقْدِ اِسْتَعْدَادِ الْبَدَنِ لِتَوْلِیْدِھَا لِاِنْفِکَاکِ الرُّوْحِ الْقُدْسِیِّ عَنِ النَّسَمَةِ۔ (حجة اللّٰہ البالغہ ج ١ ص ٥٣ ) '' وجدانِ صحیح سے یہ بات ہمارے نزدیک متحقق ہوگئی ہے کہ موت یہ ہے کہ بدن کی وہ صلاحیت جو ''نسمہ '' کو جنم دیتی ہے مفقود ہوجاتی ہے، جس وجہ سے ''نسمہ'' بدنِ اِنسانی سے جدا ہوجاتا ہے، پس بدن سے ''نسمہ'' کے چھوٹ جانے کا نام ''موت'' ہے۔ موت یہ نہیں ہے کہ رُوحِ قدسی، نسمہ سے اَلگ ہوگئی ۔ '' پھر فرماتے ہیں جب مہلک اَمراض کے نتیجہ میں ''نسمہ'' تحلیل ہوجاتا ہے تو حکمت ِ اِلٰہیہ اور اُس کی قدرتِ کاملہ یہ لازم گردانتی ہے کہ ''نسمہ '' کا اِتنا وجود ضرور باقی رہے کہ اُس سے ''رُوح اِلٰہی'' کا تعلق باقی رہ سکے جیسے کہ شیشی کو چوسا جائے تو چوس لینے کے بعد کچھ ہوا شیشی میں ضرور باقی رہتی ہے، یہ ہوا باقی نہ رہے تو شیشی چٹخ جائے (یہی صورت ''نسمہ''کی ہے) ۔ پھر فرماتے ہیں : وَاِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ کَانَ لِلنَّسَمَةِ نَشْأَة اُخْرٰی ، فَیُنْشِیُٔ فَیْضُ الرُّوْحِ الْالٰھِیِّ فِیْھَا قُوَّةً فِیْمَا بَقِیَ مِنَ الْحِسِّ الْمُشْتَرَکِ تَکْفِیْ کِفَایَةَ السَّمْعِ وَ الْبَصَرِ وَ الْکَلَامِ بِمَدَدٍ مِنْ عَالَمِ الْمِثَالِ اَعْنِی الْقُوَّةَ الْمُتَوَسِّطَةَ بَیْنَ الْمُجَرَّدِ وَ الْمَحْسُوْسِ الْمُنْبَثَةِ فِی الْاَفْلَاکِ کَشَیْیٍٔ وَاحِدٍ ۔ (حجة اللّٰہ البالغة باب حقیقة الروح ص ١٩) ١ فیض الباری ج٣ ص ٣٣٤