ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
نہیں بلکہ خدا جانے کتنے نظامِ شمسی ہیں، حال ہی میں ایک آٹھویں سیارہ کا اِنکشاف ہوا ہے جس کی روشنی ہمارے آفتاب کی روشنی سے ٦ ملین (٦٠ لاکھ) زائد ہے اور اُس کی کرن زمین تک ساڑھے تین کروڑ برس میں پہنچنے گی ۔(واللہ اعلم) (٢) حضرت حق جل مجدہ کے اِسی مختصر جواب ''مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ'' سے علماء نے اَخذ کیاہے۔ ''ھُوَ جَوْہَر بَسِیْط مُجَرَّد وَلَا یَحْدُثُ اِلَّا بِمُحْدِثِ قَوْلِہ کُنْ فَیَکُوْنُ '' ( تفسیر کبیر ج ٥ ص ٦٤٣ ) ''رُوح ایک بسیط و مجرد جوہر ہے جس کا وجود وحدوث اللہ تعالیٰ کے قول ''کن'' سے ہوا ہے یعنی اِس قول سے جو محدث ہے یعنی جس کلمہ سے اللہ تعالیٰ کائنات کو عدم سے وجود میں لاتا ہے۔'' حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے نہایت شاندار الفاظ اِستعمال کیے ہیں، آپ فرماتے ہیں : '' الروح فی الحقیقة ، حقیقة فردانیة ونقطة نورانیة '' ( حُجة اللّٰہ البالغہ باب حقیقة الروح) علامہ سیّد محمود آلوسی رحمة اللہ علیہ نے یہ تعریف کی : ''جَوْھَر بَسِیْط مُجَرَّد مُحْدَث بِاَمْرِاللّٰہِ تَعَالٰی وَتَکْوِیْنِہ وَتَاثِیْرُہ اِفَادَةُ الْحَیٰوةِ لِلْجَسَدِ ''( رُوح المعانی ج٥ ص ١٥٤) اور علامہ موصوف نے اِمام فخر الدین رازی کا یہ مقولہ نقل فرمایا ہے : ''جَوْہَر قُدْسِیّ مُجَرَّد '' ( رُوح المعانی ج٥ ص ١٥٢ ) اِن سب کا حاصل یہ ہوا کہ ''رُوح'' ایک جوہر یعنی ایک حقیقت واقعہ ہے مادّہ سے بالا (مجرد) اللہ کے حکم ''کن'' سے اِس کو جامۂ وجود میسر آیا، اِس کی تاثیر یہ ہے کہ وہ جسد (بدنِ اِنسانی) میں زندگی پیدا کردیتی ہے۔ لیکن یہ تمام اَوصاف جو رُوح کے بیان کیے گئے، اُن کو اَجزائِ ماہیت نہیں کہا جا سکتا، ''جوہر قدسی مجرد'' کے سوا جو کچھ بیان کیا گیا وہ جز ِماہیت نہیں بلکہ خاصیت اور خصوصیت ہے