ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
حضرت علامہ سہیلی روض الانف میں فرماتے ہیں کہ اِنَّ نِسْبَةَ الْمَلَکِ اِلَی الرُّوْحِ کَنِسْبَةِ الْبَشَرِ اِلَی الْمَلَکِ فَکَمَا اَنَّ الْمَلٰئِکَةَ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْنَا وَلَا نَرَاھُمْ کَذٰلِکَ الرُّوْحُ تَرَی الْمَلَائِکَةَ وَلَا یَرَوْنَھَا۔ ( فیض الباری ج ١ ص ٢٢٢ ) ''فرشتوں کو رُوح سے وہی نسبت ہے جو اِنسان کی فرشتوں سے ہے، جس طرح فرشتے ہم کو دیکھتے ہیں اور ہم اُن کو نہیں دیکھ سکتے ویسے ہی رُوح فرشتوں کو دیکھتی ہے فرشتے رُوح کو نہیں دیکھ سکتے۔'' حاصل یہ کہ جس طرح اِنسان، جن، فرشتے، علیحدہ علیحدہ مخلوق ہیں، ہر ایک کا عالَم علیحدہ ہے ایسے ہی رُوح بھی ایک مستقل مخلوق ہے یہ مخلوق اِن سب سے بالا ہے کیونکہ بِلا توسط براہِ راست اَمرِ ''کن'' سے وجود میں آئی ہے۔ (١) اِنسان مادّی ہے، اُس کا علم مادّیات تک محدود ہے کیونکہ علم ِ اِنسان کا مدار مشاہدہ پر ہے یا اُس قیاس اور تجربہ پر جو مشاہدہ ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مشاہدہ سے بالا کا علم تو کیا ہوتا ہے وہاں تک تو پروازِ فکر بھی نہیں پہنچ سکتی، لیکن بہت سے حقائق وہ ہیں جو مشاہدہ سے وراء الوراء ہیں جیسے خود باری تعالیٰ عزاِسمہ یا مثلاً رُوح اور ملائک وغیرہ اِن سب کو قرآنِ پاک '' اَلْغَیبْ '' سے تعبیر کرتا ہے اور اُس پر اِیمان لانا لازم گردانتا ہے۔ رُوح بھی ایسی ہی ایک حقیقت ہے جو ''الغیب'' میں داخل ہے۔ ''الغیب'' کی کوئی اِنتہاء نہیں اُس کی صرف وہ حقیقتیں اِنسان کو بتا دی گئیں جن پر اِنسان کی رُوحانی ترقی اور اُخروی نجات کا مدارتھا، اُن کے علاوہ خدا جانے کتنے حقائق یا عَوالِم ہیں جن کے نام اور نشان بھی اِنسان کو معلوم نہیں کیونکہ وہ اگرچہ رب العالمین کی مربوب ہیں،مگر اِنسان کی رُوحانی ترقی اور اُس کی اُخروی نجات سے اُن کا تعلق نہیں ہے،مادّہ سے بالا تو دَرکنار خود مادّہ ہی کے سلسلے میں خدا جانے کتنے عالَم ہیں جن کا اِنسان کو علم نہیں۔ سائنس جدید نے اَب کہنا شروع کیا ہے کہ نظامِ شمسی جو ہمارے تمام مشاہدات کا محور ہے ایک