ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
فرما دیا کہ تصویر کے تحقق کے لیے باقاعدہ اَعضا وجوارح کی تخلیق وتکوین ضروری نہیں ، محض ایک نقش بنا دینا بھی تصویر میں داخل ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب بانی دارُالعلوم کراچی کی اِسی سلسلہ کی ایک تحریر ملاحظہ ہو : ''ذرا بھی غور سے کام لیں تو اعضاء کی تخلیق وتکوین تو کوئی مصور بھی نہیں کرتا، اَعضاء کی ظاہری سطح نقش کے ذریعہ بنا دیتا ہے، نہ اُس میں رگیں پٹھے بنتے ہیں، نہ ہڈی او رگوشت بنتا ہے، شریعت نے اِس ظاہری سطح کا نقش بنا دینے ہی کا نام تصویر رکھا ہے جس کو حرام قرار دیا ہے تو فوٹو میں اعضا کی سطح کو رنگ وروغن کے ذریعہ قائم کر دینے اور قلم سے رنگ بھردینے میں کیا فرق ہے ؟ حدیث کے الفاظ میں بھی اِس کو تخلیق نہیںبلکہ مضاہاة لخلق اﷲ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے یعنی تخلیق ِخداوندی کی مشابہت پیدا کرنا اور نقالی اُتارنا، اِس میں ظاہر ہے کہ وہ قلم کے ذریعہ کی جائے یا کسی مشین کے ذریعہ، اِن دونوں میں کوئی فرق نہیں۔'' ( تصویر کے شرعی اَحکام ٢١٤ ) ’ اگر کوئی چیز منافع ومفاسد دونوں کو جلو میں لیے ہوئے ہو تو فتویٰ میں بہت غور کرنا چاہیے، کہ کون سا پہلو غالب ہے، حرمت ِخمر کے سابقہ مرحلہ کی جو آیت سورۂ بقرہ میں ہے، اُس سے یہ اُصول ثابت ہے او رحضرات ِفقہاء کی بھی صراحت ہے : درء المفاسد اولٰی من جلب المصالح، فاذا تعارضت مفسدة ومصلحة قدم دفع المفسدة غالباً ، لان اعتناء الشّرع بالمنھیات اشد من اعتنائہ بالمامورات.( الاشباہ والنظائر لابن نجیم : ١/ ٢٩٠ ) ٹی وی میں بے شک کچھ منافع ہیں جو اَظہر ہیں مگر اِس کے مفاسد کا پہلو غالب ہے جیسا کہ تجربہ ہے ، جب ٹی وی کی صورتوں کو حرام صورتوں سے خارج کر دیا جائے گا اور ٹی وی کو جائز کہہ دیا جائے گا تو یہ سانپوں کی پٹاری ہر دیندارمسلمان کے گھر میں داخل ہو جائے گی اور ٹی وی چینلوں پر کسی کا زور نہیں، پس گھر والے ہر طرح کے چینل دیکھیں گے اور اِشاعت ِاِسلام اور دفاع عن المسلمین کا مقصد