ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
|
یہ فاحشہ اور بدکار عورتوں کا منہ دیکھنا اِسے نہ ملے یعنی مطلب تو یہی ہوا کہ میرا منہ نہیں دیکھنا چاہتا تواِسے یہ سزا ملے کہ اِس کا واسطہ فاحشہ اور بدکار عورتوں سے پڑے۔ حقیقت تو یہ تھی نہیں کہ ماں کا منہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے حقیقت تو یہ تھی کہ عبادت میں دِل لگا ہوا تھا اور وہ سوچتے تھے کہ عبادت جس میں میںلگا ہوا ہوں وہ اِختیار کروں یا ماں کے پاس جائوں۔ دیگر مذاہب میں یہ تفصیلات نہ تھیں کہ دُنیاوی کام میںبھی ثواب مِل سکتا ہے : کیونکہ دُوسرے مذاہب میں اِتنی تفصیلات نہیں تھیں کہ تم جو کام کرو اور خدا کی نیت سے کرو تو چاہے تم اِینٹ اُٹھا رہے روڑے اُٹھا رہے ہو کانٹا ہٹا رہے ہو راستے میںسے اُس پر بھی اَجر ہے بلکہ اِتنا اَجرمِل جاتا ہے کہ بخشش ہی ہوجاتی ہے ،اللہ تعالیٰ کو پسند آجائے تو ایک عمل بھی بخشنے کے لیے کافی ہے ۔ بہرحال واسطہ ضرور پڑا اُن کو بد کار عورت سے زِنا کار عورت سے اور اِلزام لگادیا اُس عورت نے اچھا لوگوں کو جب پتہ چلا تو اُنہوں نے جو اِس کا گرجا تھا وہ ڈھا دیا ،بڑا خراب آدمی بڑا یہ ،بنا ہوا ہے بیٹھا ہوا ہے جیسے عوام کا رُجحان ہوتا ہے کہ اَگر عقیدت ہوگی تو حد سے بڑھ جائیں گے نفرت ہوگی تو حد سے بڑھ جائیں گے بلا تحقیق کے، اُن کا بیان بھی نہیں سنا صرف اُس عورت کے اِلزام پر ہی اُنہوں نے اُس کا صَوْمَعَہ گرجا ڈھا دیا جو عبادت خانہ تھا تو وہ اُتر کے آئے پہاڑی جیسی اُونچی جگہ پر بنا رکھا ہوگا تھوڑی اُونچی جگہ ہوگی اُنہوں نے کہا بات کیا ہے ،لوگوں نے کہا یہ تیری کارستانی ہے اِنہوں نے وضو کی اور اُس کے بعد نماز بھی پڑھی غالبًا حدیث شریف میں آتا ہے اور پھر اُس سے پوچھا کہ بچے تیرا باپ کون ہے ؟ یَا بَابُوْسْ مَنْ اَ بُوْکَ اَب وہ بچہ تو پیدا ہوا تھا بولنے کے قابل نہیں تھا لیکن اُس نے نام بتایا کہ فلاں ہے میرا باپ ! اَب یہ ایک عجیب چیز تھی کہ ایک بچہ جو اَبھی پیدا ہوا ہے چند گھنٹے گزرے ہوں یا چند دِن گزرے ہوں ایک یادو دِن گزرے ہوں بمشکل ،وہ بات بتائے اور جواب دے بات کا ! تو اُن کی عقیدت کی تواِنتہا نہیں رہی اور اُنہوں نے کہا کہ ہم تو آپ کا گر جا سونے سے بنائیں گے ! اُنہوں نے کہا نہیں مِنْ طِیْنٍ ١ بس یہ مٹی ہی سے بنادو ۔ ١ بخاری شریف رقم الحدیث ١٢٠٦ و ٢٤٨٢