ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
|
اِسلامی معاشرت ( حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری،اِنڈیا ) نکاح کرتے وقت کن باتوں کا خیال رہے ؟ عقد ِنکاح : شریعت کی نظر میں نکاح تکلف وتصنع سے دُور ایک سادہ عمل ہے جسے آج ہم نے سب سے پُرتکلف عمل بنا لیا ہے اور خود ہی اپنے لیے مشکلات کا سامان مہیا کر لیا ہے حالانکہ اِسلامی فقہ سادگی کے ساتھ نکاح کی تعریف اِس طرح کرتی ہے : ''نکاح ایسا عقد ہے جس سے عورت سے جسمانی نفع اُٹھانے کی اِجازت حاصل ہوجاتی ہے اور جو گواہوں ( دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں اِصالةً یا وکالةً اِیجاب وقبول کے ذریعہ منعقد ہوجاتا ہے ،اِس عقد کی بنا پر مرد پر ''مہر'' اور بیوی کے نان و نفقہ اور سکنی کی ذمہ داری اور عورت پر شوہر کی اِطاعت لازم ہوتی ہے۔'' نکاح کی حقیقت یہ ہے جو اُوپر ذکر کی گئی اِس کے علاوہ ہم نے جو لوازمات اَپنالیے ہیں اُن پر نکاح کی صحت یا اِنعقاد موقوف نہیں ہے۔ مہر : نکاح میں مہر شرط قرار دی گئی ہے، اِرشادِ خداوندی ہے : ( وَاٰتُوا النِّسَائَ صَدُ قٰتِھِنَّ نِحْلَةً ) (سُورة النساء : ٤) ''تم لوگ بیبیوں کو اُن کے مہر خوش دِلی سے دے دیا کرو۔'' سورہ نساء کی آیت ٢٤ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو مہر دینا ضروری ہے۔ نکاح میں مہر اِس طرح لازم ہے کہ اَگر عقد کے وقت مہر کا ذکر بھی نہ کیا جائے یا یہ شرط لگا دی جائے کہ مہر نہ ہوگا تو بھی خود بخود مہر مثل واجب ہوجاتا ہے۔ ''مہر مثل'' کا مطلب یہ ہے کہ اُس خاندان اور اُس جیسی عورتوں