ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
|
مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت میں تھے لگے ہوئے خشوع اور خضوع کی کیفیت تھی ماں بلا رہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ عمل پسند نہیں ہے (کہ خشوع خضوع کی وجہ سے ماں کو نظر انداز کر دے)کیونکہ خشوع اور خضوع قائم رکھتے ہوئے ماں کی خدمت بھی تو ہو سکتی تھی وہ کرنی چاہیے تھی، اِسلام نے یہ تفصیلات بتادیں کہ ایسی صورت میں نماز مختصر کردو اور اُس کی بات سنو جا کر اور اگر زیادہ خطرہ ہو تو توڑ بھی سکتے ہو دوہرا لو اُسے اور جو یہ کام کرو گے تو یہ ثواب سے خالی نہیں اِس میں بھی ثواب ہے۔ ماں باپ کے کہنے پر بیوی کو طلاق نہ دینی چاہیے : اور یہ جو فرمایا گیا چاہے تمہاری بیوی اور چاہے تمہارا مال سب وہ کہیں کہ چھوڑ کے چلے جاؤ یہ مبالغةً اِرشا فرمایا تعلیم کے لیے، ذہن اِنسان کا اِطاعت پر اِتنا زیادہ آ جائے مطلب یہ نہیں ہے کہ سچ مچ ماں باپ ایسے کریں اور سچ مچ وہ ایسا کردے بلکہ اگرماں باپ کہیں کہ فلاں عورت کو طلاق دے دو اور کوئی شرعی وجہ نہ ہو تو اُسے اِختیار ہے دے یا نہ دے بلکہ نہ دینا زیادہ ضروری ہے ۔فقہاء نے جنہوں نے تمام اَحادیث کا مطالعہ کیا ہے اور اُس سے پھر مذہب کی حقیقت نکالی ہے اُنہوں نے پھریہ فرمایا کہ اگر کوئی شرعی وجہ نہیں ہے تو بالکل ضروری نہیں ہے ماں باپ کا ماننا بلکہ نہ مانے طلاق نہ دے، یہاں اِرشاد ہے کہ چاہے تمہاری بیوی اور چاہے تمہارا مال وہ سب کچھ چھڑوانا چاہیں پھر بھی چھوڑ دو........... (اَب حدیث کے مطابق تو )جو بھی کچھ ہے سب چھوڑ کر چلے جاؤ اوراُن کی بات مانو، بظاہر اِس میں یہ کلمات آرہے ہیں لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے اِس حدیث شریف کا کہ اِنتہا درجے اِطاعت کرو جہاں تک شریعت نے تمہیں اِجازت دی ہے اُس میں بالکل کوتاہی نہ کرو، مگر جہاں شرعی حکم آجائے وہاں بس پھر رُک جاؤ اَب اُن کی اِطاعت نہیں کی جائے گی ( وَاِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْم فَلَا تُطِعْھُمَا)اُن کی اِطاعت نہ کرو۔ تدبیر کیا اور کیسے کرے ؟ حسنِ بصری رحمة اللہ علیہ سے پوچھا گیا ایک مسئلہ کہ عشاء کی نماز اور اَندھیرا ،یہ چراغ اور روشنی اور بجلی یہ تو تھی ہی نہیں بلکہ لالٹینیں بھی نہیں تھیں مٹی کا تیل بھی نہیں تھا تو اُس زمانے میں اَندھیری