ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ''تصویر ہونے یا نہ ہونے کا مدار عرف پر ہونا چاہیے، نہ کہ سائنسی وفنی تدقیقات پر اور عرفِ عام میں اِسے تصویر ہی سمجھا جاتا ہے جیسے شریعت نے صبح صادق اور طلوع وغروب کا علم کسی دقیق علم وفن پر موقوف نہیں رکھا، ظاہری وسہل علامات پر رکھا ہے۔'' (اَحسن الفتاوی ج ٩ ص ٨٩) ‘ تصویر کی حرمت کی علت، خود شارع علیہ الصلوٰة والسلام کی صراحت کے مطابق مضاھاة لخلق اﷲ ہے یعنی تخلیقِ خداوندی کی نقالی اور ہمسری ،اِس حوالہ سے یہ بات قابلِ غور ہے کہ مجسَّم اور غیر متحرک تصاویر ایک ہی وضع اور حالت پر رہتی ہیں اور محض ظاہری اِعتبار سے خلق اﷲ کے مشابہ ہوتی ہیں، ورنہ دَرحقیقت دونوں میں بون بعید اور تباین ہے کہ خلق اﷲ زندہ او رمتحرک بالارادہ ہے اور خلق العبد سراپا جامد وساکن اور محض ایک نقش اور چھاپہ، مگر دونوں کی حقیقت او رماہیت میں اِس قدر فرق کے باوجود محض ظاہری تشابہ کی بنیاد پر اِس ظاہری نقش کو بھی اﷲ تعالیٰ کی ہمسری اور نقالی میں داخل مانا گیا، تو کیا خلق العبد کے وہ نقوش جو دیکھنے میں زندہ او رمتحرک بالارادہ نظر آئیں اور رُوح وجان رکھنے والی اَشیاء کی طرح جملہ اَفعال وحرکات کرتے دکھائی دیں، خلق اﷲ کے ساتھ اِتنی زیادہ قربت ومشابہت کے باوجود خلق اﷲ کی نقالی اور ہمسری میں داخل نہیں ہوں گے ؟ واقعہ یہ ہے کہ زیر بحث صورت ، تصویر سے کمتر نہیں بلکہ اُس سے بڑھ کر ہے اور تصویر کے حرام ہونے کی جو اَصل وجہ اور علت ہے یعنی مضاہاة ومشابہت، اِس کا واضح مصداق ہے، نیز تصویریں ٹی وی اسکرین سے لے کر روز اَخباروں میں چھپتی ہیں، پس اِن صورتوں کو اَشبہ بالعکس کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اِن کو اَشبہ بالصور قرار دینا ہی مناسب ہے۔ جس وقت فوٹو گرافی کا مسئلہ نیا نیا پیدا ہوا اور علماء میں اِس کے جواز وعدم جواز کی بحث چھڑی، تو اِس کے جواز کی ایک دلیل یہ بھی پیش کی گئی تھی کہ اِس صورت میں اَعضا کی تخلیق وتکوین نہیں ہوتی، فقط ایک نقش اور چھاپہ ہوتا ہے، لہٰذا یہ تصویر سے خارج ہونا چاہیے، حضراتِ اَکابر نے اِس کو یہ کہہ کر رَد