ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
|
حرفِ آغاز نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِےْمِ اَمَّابَعْدُ ! عید الفطر کے کچھ روز بعد ہی سے جامعات میں اَساتذہ اور عملہ کی واپسی اور نئے سال کے داخلوں کی تیاری کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ،تاریخ ِ داخلہ کے قریب آتے ہی بیرونِ ملک اور ملک بھر سے طلباء کی آمد بھی تیزی سے شروع ہوجاتی ہے ،اِس کے ساتھ ہی اِنٹیلی جنس اِداروں کے اہلکاروں کی آمد کا بے ربط اور لامتناہی سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے ۔ ہماری نظر میں اُن کی یہ بھاگ دوڑنا صرف سرکاری خزانہ کا ضیاع ہے بلکہ بے فائدہ بھی ہے، بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے جاری اِس دوڑ دھوپ نے اُلٹا اِن اِداروں کو ہلکان کر ڈالا ہے حالات قابو میں آنے کے بجائے دِن بدن بے قابو ہوتے چلے جا رہے ہیں، اِن کے دفاتر میں جھوٹی سچی رپورٹوں پر مشتمل پلندوں کے اَنباروں کو دیکھ کر خود اُن کے اَفسران ہی چکرا جاتے ہیں جب سِراہی ہاتھ نہیں لگتا تو اُن پر چڑ چڑاپن طاری ہوجاتا ہے ،اُن کے بس کی بات نہیں کہ وہ اِن کا بغور مطالعہ کر پائیں لہٰذا اَدھوری اور سرسری نظر کے بعد جو ''ہوائی خلاصہ'' تیار کیا جاتا ہے وہ غلط ہی ہوتا ہے اِسی لیے اِن کے بل بوتے پر ہونے والی کار روائیاں بھی ''اَندھی گولی'' سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتیں جس کے نتیجہ میں قیامِ اَمن کے بجائے ملک میں اَفرا تفری اور اِنتشار ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جامعہ مدنیہ جدید اور ملک کے دیگر تمام دینی مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم کا آغاز ہوتے ہی سی آئی ڈی کی ایسی بھر مار ہوتی ہے جیسی کہ ہندوستان سے سکھ زائرین کی آمد کے موقع پر ہونی چاہیے جو رنجیت سنگھ کی مڑھی ،حسن اَبدال یا ننکانہ اپنے مذہبی تہواروں کے مواقع پر آتے ہیں مگرجن کا پڑھنا پڑھانا