ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
|
(وَلَوْ یُعَجِّلُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْھِمْ اَجَلُھُمْ )جو لوگ زبان سے کہتے ہیں اپنے مال یا اَولاد کے بارے میں، وہ زبان سے نکلنے والی بات اگر پوری ہوتی جائے تو پھر سب ختم ہوگیا ہوتا کب کا پھر تو کوئی بچتا ہی نا، تو ٹھیک ہے وہ جملے سخت بھی کہتے ہیں تنگ بھی کرتے ہیں برا بھی کہتے ہیں کوس بھی ڈالتے ہیں بعض دفعہ لیکن اللہ تعالیٰ اُن کے کلمات کواُن پر نافذ نہیں فرماتے ،لیکن اگر زیادہ دِل دُکھ جائے توکبھی کبھار ایسے بھی ہوجاتا ہے معاذ اللہ خدا پناہ میں رکھے کہ اگر کسی کو لگ جائے ماں یاباپ کی بد دُعا تو پھر اُس کا علاج کوئی بھی نہیں ہے۔ یہ تو ہوئی بات اُن تمام معاملات کی جو جواز کی حد میں ہیں۔ اور ایک وہ حقوق ہیں کہ جو اِسلام سے متعلق ہیں اُن میں کیا ہے یعنی ایک کافر ماں جو ہے بیٹے کو اِجازت نہیں دیتی کہ مسلمان ہو۔ مسلمان ہوگا بھی تو برا بھلا کہے گی، ڈانٹ ڈپٹ کرے گی ،کوسے گی، پیٹے گی، سب کچھ کرے گی گو شفقت بھی رہے گی ساتھ بلکہ اُس کابرا کہنا ہی تعلق کی وجہ سے ہوگاتو اُس میں کیاحکم ہے ؟ اُس میں یہ حکم نہیں ہے کہ اُن کی بات مان لیں ( اِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْم ) اگر یہ ماں باپ کوشش کریںکہ شرک پر آجاؤ معاذ اللہ کفر پر آجاؤ ( فَلَا تُطِعْھُمَا) تو اُن کی اِطاعت نہ کرو( وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا) ہاںدُنیا میں اُ ن کے ساتھ زندگی اچھی گزارو ،دُنیاوی معاملات کا جہاں تک تعلق ہے اُس میں اُن کا پورا پورا خیال رکھو۔ دُنیا کی بات بھی دین بن جاتی ہے : اَب یہ دُنیا کی بات ''دین'' بن جائے بالکل سمجھ نہیںقبول کرتی اِس کو لیکن ہے ایسے ،یہی چیز اللہ نے بتائی ہے کہ ہے یہ دُنیا کی بات، ماں باپ سے تعلق رکھنا ،اُن کی بات پوری کرنا، اُن کی خواہش کا اِحترام کرنا بالکل دُنیا سے تعلق ہے اِس کا لیکن اِس میں ثواب ہے اور شریعت نے یہ بتلایا کہ مسلمان کا ہرعمل ثواب ہے ،ہر عمل عبادت ہے چاہے بالکل دُنیا ہو کیونکہ اُس میں جواز، عدمِ جواز ، اِن چیزوں کا وہ خیال رکھ رہا ہے تو وہ عبادت بنتا جا رہا ہے بظاہر دُنیاداری ہے بظاہر دُکانداری ہے لیکن وہ خیال رکھ رہا ہے کہ غلط نہ تول دُوں ،غلط نہ ناپ دُوں، خراب چیز نہ دے دُوں ، کوئی خریدار اچھے گمان سے آئے اور میں اُس سے کہوں یہ سودا اچھا ہے اور وہ سچ مچ خراب ہو یہ نہ ہونے پائے، اِس خیال سے نہیں کہ میری