ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
تو ایک طرف رہ جائے گا اور صالح اِسلامی معاشرہ تباہ ہو کر رہ جائے گا، فتوے میں اِس کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ علاوہ اَزیں اِس وقت ''ٹی وی'' مفاسد اور محرمات کا مبدأ اور سر چشمہ بنا ہوا ہے، پوری دُنیا میں جو فحاشی وعریانیت اور بے حیائی وبرہنگی مفت تقسیم ہو رہی ہے، وہ ڈیجیٹل نظام کی دَین اور پیداوار ہے، اِس لحاظ سے بھی یہ '' کل ما ادی الی مالا یجوز لا یجوز '' کے تحت ناجائز اور حرام ہونا چاہیے۔ حضرت مولانامفتی سعید اَحمد صاحب پالن پوری مدظلہم اپنی شرحِ ترمذی میں رقم طراز ہیں : ''تصویر سازی اِس لیے بھی حرام ہے کہ تجربہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اِس وقت ساری دُنیا فحاشی اور عریانیت سے جو بھر گئی ہے ، یہ اِسی کیمرے کی نحوست ہے، پہلے گندے فوٹو کوک شاستروں میں چھپتے تھے اور لوگ چپکے چپکے اُن کو دیکھتے تھے مگر اَب ٹی وی، ویڈیو ، وی سی آر وغیرہ خرافات کے ذریعہ ہر جگہ یہ ننگے فوٹو پھیل گئے ہیں اور نوجوان نسل تیزی کے ساتھ اِن کا اَثر قبول کررہی ہے اور'' ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ'' کا منظر عیاں ہے، مکہ اور مدینہ بھی اِس سے نہیں بچے بلکہ اَب تو ڈیجیٹل کیمرے موبائل میں آگئے ہیں اور ہر جیب میں موجود ہیں۔ فَاِلَی اﷲِ الْمُشْتَکٰی ! '' (تحفة الالمعی٥/ ٧٩ ) اَلغرض ! مذکورہ معروضات کی روشنی میں ڈیجیٹل نظام کے ذریعہ محفوظ کر دہ عکس اور ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے والی صورتیں بھی تصویر محرم میں داخل ہیں اور مجسَّم تصویر سازی اور فوٹو گرافی کی طرح ناجائز اور حرام ہیں۔ فقط واﷲ اعلم بالصواب۔ اَلعبد محمد طاہر عفا اﷲ عنہ مفتی مظاہر علوم سہارنپور (یو۔پی) یکم ربیع الثانی١٤٣٠ھ اَلجواب صحیح : سعید اَحمد عفا اﷲ عنہ پالن پوری خادم دارُالعلوم دیوبند اَلجواب صحیح : مقصود عالم مفتی اَلجامعہ مظاہر علوم