ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
|
اِصطرلاب کے اِستعمال کو اِسی بنا پر مسائلِ شرعیہ کی بنیاد نہیں بنایا گیا بلکہ ہلال کا مدار رؤیت پر اور سمت ِقبلہ کا شہر کی قریبی مساجد پر، پھر محاریب صحابہ پر رکھ دیا گیا، حالانکہ یہ فتویٰ اور اُن کے آلات عہد ِرسالت اور قرون ما بعد میں بکثرت موجود ومروج تھے۔ اِس اُصول کی بنا پر مسئلہ زیر بحث میں دو نتیجے نکلتے ہیں : اَوّل یہ کہ عباداتِ خالصہ میں اِس قسم کے آلات کا استعمال اُصولاً پسندیدہ نہیں جیسا کہ اِس کی تفصیل اِسی رسالہ کے شروع میں آچکی ہے۔ دُوسرے یہ کہ اَگر کسی نے اِن آلات کو مسائلِ مذکورہ میں اِستعمال کر لیا تو اَصل عمل صحت وعدمِ صحت کا مدار پھر بھی اُن فنی تدقیقات پر نہیں بلکہ ظاہرِ حال ہی پر رہے گا مثلاً اگر کسی شخص نے اِصطرلاب وغیرہ کے ذریعہ سمت ِقبلہ قائم کر لی تو شرعاً اُس کی صحت وعدمِ صحت کا معیار فنِ اِصطرلاب کی باریکیاں نہ ہوں گی بلکہ وہی عام مساجد بلدہ کی موافقت وعدم موافقت پر مدار ہو گا۔ مذکور الصدر اصول کے مطابق آلۂ مکبر الصوت کے ذریعہ سنائی دینے والی آواز کو ظاہر ومتعارف عوام کے موافق متکلم کی اَصل آواز ہی کہا جائے گا، گوفنی تدقیقات بالفرض یہی ثابت کریں کہ وہ اَصل آواز نہیں بلکہ اُس کا عکس ہے کیونکہ اِس صورت میں اَصل آواز اور اُس آلہ کی آواز کا فرق اِس قدر دقیق ہو گا کہ اُس کو عوام تو کیا خود ماہرین سائنس کو بھی واضح نہ ہوا، اِس لیے اُن میں اِختلاف رہاتو ایسی تدقیقات فلسفیہ، جن کا اِدراک ماہرین ِفن بھی مشکل سے کر سکیں، اَحکامِ شرعی کا مدار نہیں ہو سکتیں بلکہ اُن اَحکام میں حسب ِظاہر اِس کو اَصل متکلم ہی کی آواز قرار دیا جائے گا۔ واﷲ سُبحانہ وتعالٰی اعلم۔'' (آلات ِجدیدہ کے اَحکام ص٦٠) حضرت مولانامفتی رشید احمد صاحب کسی شے کے تصویر ہونے یانہ ہونے کے معیار ومدار کی