ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
|
حضرت مولانا مفتی رشید اَحمد صاحب (بانی جامعة الرشید کراچی )تحریر فرماتے ہیں : '' اگر یہی تسلیم کر لیا جائے کہ وہ ( ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے والی تصویر) مٹ جاتی ہے او رپھر بنتی ہے ، یہی عمل ہرلحظہ جاری رہتا ہے تو اِس میں اور زیادہ قباحت ہے کہ بار بار تصویر بنانے کا گناہ ہوتا ہے۔'' ( اَحسن الفتاوی ٩/٨٩) گ کسی بھی مسئلہ کی سائنسی تحقیق کرنا برا نہیں، ڈیجیٹل چپ کیسے کام کرتی ہے ؟ اِس کی اہلِ فن سے تحقیق کی جاسکتی ہے لیکن اِس تحقیق پر فتویٰ کا مداررکھنا مناسب نہیں، فتوی کا مدار اُس شے کے عوامی تصور اور اُس کی ظاہری حیثیت پر ہی ہونا چاہیے، رؤیت ہلال کا مسئلہ منصوص ومصرح ہے کہ اُس کے تحقق کا حکم ظاہری رؤیت ودید پر ہو گا خواہ سائنسی تحقیق کچھ بھی کہتی رہے۔ ماضی قریب میں آلۂ مکبر الصوت کا مسئلہ دَرپیش ہوا تو اِس سلسلہ میں ماہرین ِفن کی مختلف آراء سامنے آئیں لیکن فتوی عوامی تصور کے مطابق نماز کے جواز کا دیا گیا کہ عام لوگ اِس کی آواز کو متکلم کی اَصلی آواز ہی سمجھتے ہیں، اِسی طرح ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے والی صورتوں کو اگرچہ اَربابِ فن تصویر نہ قرار دیں، امیج کہیں مگر عوام اِن کو صورتیں ہی سمجھتے ہیں، پس فتویٰ اِسی تصور کے مطابق دینا چاہیے۔ آلۂ مکبر الصوت اور سائنسی تحقیق کی شرعی حیثیت پر مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اﷲ علیہ بانی دارُالعلوم کراچی کی ایک اُصولی تحریر ملاحظہ ہو : '' عام اَحکامِ اِسلامیہ شرعیہ کے ملاحظہ سے یہ اَمر متیقن ہے کہ جن مسائل کا تعلق فلسفیانہ تحقیق وتدقیق یا ریاضی کی باریکیوں یا اِصطرلاب وغیرہ آلات سے ہے، شریعت ِمصطفویہ علی صاحبہا الصلوٰةوالسلام نے اِن سب میں حقائق کی تحقیق وتدقیق سے اغماض کرکے محض ظواہر پر اَحکام دائر فرمائے ہیں جن کو ہر خاص وعام، عالم وجاہل، شہری اورجنگلی آسانی کے ساتھ بدوں اِستعانت ِآلات وحسابات معلوم کرکے خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد شدہ فریضہ سے سبکدوش ہو سکے، رؤیت ہلال او راِختلاف مطالع کی بحث میں منجمین او راہل ریاضی کی تحقیقات کو، سمت ِقبلہ میں