ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
ذی جسم مادّہ سے بنائی جائے یا غیر ذی مادّہ جسم سے اور خواہ بن جانے اور وجود میں آجانے کے بعد وہ باقی رہے یا نہ رہے۔ اِمام نووی کی صراحت ہے : '' تصویر صورة الحیوان حرام شدید التحریم، وھو من الکبائر؛ لنہ متوعد بھذا الوعید الشدید المذکور فی ھذا الحدیث، وسواء صنعہ بما یمتھن او بغیرہ، فصنعتہ حرام بکل حال؛ لنہ فیہ مضاھاة لخلق اﷲ تعالٰی، وسواء ما کان فی ثوب او بساط او درھم او دینار او فلس او اناء او حائط او غیرھا '' ( شرح مسلم ٢/١٩٩ ) ''تصویر کے تحقق کے لیے قرار وبقاء ضروری نہیں، فقط اِتنا ضروری ہے کہ وہ صاحبِ تصویر اور اَصل کے تابع نہ ہو اور قرار وبقاء کا مفہوم بھی صرف اِتنا ہی ہے ، لہٰذا اَگر کسی شخص نے کوئی تصویر بنائی اور پھر فوراً اگلے ہی لمحہ اُس کو مٹا بھی دیا تو اُس کو تصویر سازی کا گناہ ہو گا، یا اگر کوئی مشین ایسی ہو جس کی ایک زد سے تصویر بنتی ہو اور دُوسری زد سے فوراً محو ہو جاتی ہو تو یہ بھی تصویر سازی میںد اخل ہو کر حرام ہو گا، اِسی طرح ڈیجیٹل کیمرہ اسکرین پر جو شعاعیں پھینکتا ہے تو اسکرین پر تصویر بن جاتی ہے اوراَگلے ہی لمحہ فنا بھی ہو جاتی ہے، ایک سیکنڈ میں ساٹھ فریم بنتے اور ٹوٹتے ہیں اور ظاہر ہے کہ فریم کا ٹوٹنا اور فنا ہونا وجود کے بعد ہی ہوتا ہے اور وجود ہی پر متفرع ہوتا ہے لہٰذا یہ بھی تصویر سازی میں داخل ہو گا۔'' قرار وبقاء کے مذکورہ مفہوم کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے حضراتِ اَکابر نے سینما کے پردہ پر ظاہر ہونے والے نقوش کو بھی تصاویر قرار دیا، سینما کے پردہ پر نمودار ہونے والے نقوش بھی بنتے او رختم ہوتے رہتے ہیں، ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے والے نقوش ،پردہ ٔ سینما پر ظاہر ہونے والے نقوش سے مشابہت ومطابقت رکھتے ہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ پردۂ سینما پر شعاعیں سامنے سے ڈالی جاتی ہیں اور ٹی وی اسکرین پر پیچھے سے، لہٰذا ٹی وی اسکرین پر ظاہر ہونے والے نقوش بھی تصویر میں داخل ہوں گے۔