ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
اِسی نو پید صورت کے بارے میں حضرت مولانا مفتی سعید اَحمد صاحب پالن پوری زید مجدہ شیخ الحدیث دارُالعلوم دیوبند شرحِ ترمذی میں لکھتے ہیں : ''اِسی طرح ایک دلیل لوگ یہ بھی دیتے ہیں کہ ڈیجیٹل میں او رفلم میں غیر واضح ذرّات کی شکل میں تصویر آتی ہے، پس اِس پر تصویر کا اِطلاق درست نہیں، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ غیر واضح نکتے کیا کام آئیں گے ؟ اِن کو بہر حال صفحۂ قرطاس (اسکرین) پر واضح کرکے منتقل کیا جائے گا، پس مآلاًوہ تصویربنیں گے ، اِس لیے اِبتداء ہی سے وہ حرام ہوں گے۔'' ( تحفة الالمعی ٥/ ٨٠) ویڈیو گرافی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں حضرت مولانا محمد خالد سیف اﷲ رحمانی تحریر فرماتے ہیں کہ : ''ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کو عکس قرار دینا صحیح نہیں، عکس وہ صورت ہے جس میں ٹھہراؤ اور جماؤ نہ ہو جیسا کہ پانی یا آئینہ میں ہوتا ہے، ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی میں یہ صورت نہیں ہوتی بلکہ صاحب ِتصویر کی صورت رِیل میں محفوظ ہو جاتی ہے اور جماؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔'' ( کتاب الفتاوی ٦/١٧٠) علاوہ اَزیں مرسلہ مقالہ اور فتوی میں جن عرب علماء کے اَقوا ل کو بطورِ اِستدلال وتائید پیش کیا گیا ہے، یہ درست نہیں، اُن کا تو مؤقف ہی علیحدہ ہے، اُنہوں نے تو عام کیمرے کے فوٹو کو بھی پہلے ہی سے تصویر سے خارج کر رکھا ہے، لہٰذا فتویٰ میں اُن کے اَقوال سے اِستدلال نہ ہونا چاہیے، اِسی طرح بنگلور اِجتماع کے حوالہ سے حضرت مولانا اَسعد صاحب مدنی نو راﷲ مرقدہ وغیرہ کی جو رائے نقل کی گئی ہے ، وہ دورانِ بحث اُن کی طرف سے پیش کردہ محض ایک بات تھی، نہ وہ اُن کی کوئی حتمی رائے تھی اور نہ ہی سیمینار کا فیصلہ، سیمینار کا فیصلہ ٹی وی کے عدم جواز کا ہی تھا، پس ایسی کچی بات بھی فتویٰ کی بنیاد نہیں ہونی چاہیے۔ ڈ شریعت ِاِسلامیہ میں تصویر سازی مطلقاً حرام ہے، خواہ تصویر چھوٹی ہو یا بڑی اور خواہ کسی