ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
|
تحریر فرماتے ہیں : ''ویڈیو کیمرہ سے کسی بھی تقریب کی منظر کشی کا عمل تصویر سازی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے جیسے قدیم زمانہ میں تصویر ہاتھ سے بنائی جاتی تھی پھر کیمرہ کی اِیجاد نے اِس قدیم طریقہ میں ترقی کی اور تصویر ہاتھ کے بجائے مشین سے بننے لگی جو زیادہ سہل اور دیر پا ہوتی ہے، اَب اِس عمل میں نئی نئی سائنسی اِیجادات نے مزید ترقی کی او رجدّت پیدا کی اور جامد وساکن تصویر کی طرح اَب چلتی پھرتی دوڑتی بھاگتی صورت کو بھی محفوظ کیاجانے لگا، یہ کہنا صحیح نہیں کہ اِس کو قرار وبقا نہیں، اگر اِس کو بقا نہیں تو وہ ٹی وی اسکرین پر چمکتی دمکتی اوراُچھلتی کودتی نظر آنے والی چیز کیا ہوتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ وہی تصویر ہے جو کسی وقت لے کر محفوظ کی گئی تھی، صرف اِتنی سی بات ہے کہ کیسٹ کی پٹی میں ایسی فنی جدّت سے کام لیا گیا ہے کہ دیکھنے میں پٹی خالی نظر آتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ وہ تصویر معدوم نہیں ہوتی، ورنہ وی سی آر پر دوبارہ کیسے ظاہر ہو سکتی ہے ؟ '' (اَحسن الفتاوی ٩/٨٨) ''تصویر اور سی ڈی کے شرعی اَحکام'' نامی رسالہ( مؤلفہ مفتی اَحسان اﷲ صاحب شائق ، مفتی جامعة الرشید کراچی) میں حضرت مولانا محمدیوسف صاحب شہید لدھیانوی رحمة اللہ علیہ کا ایک فتویٰ نقل کیا ہے جس میں حضرت نے لکھا ہے کہ : '' ٹی وی اور ویڈیو فلم کا کیمرہ جو تصویریں لیتا ہے وہ اگرچہ غیر مرئی ہیں لیکن تصویر بہرحال محفوظ ہے او راِس کو ٹی وی پر دیکھا جاسکتا ہے ، اِس کو تصویر کے حکم سے خارج نہیں کیا جاسکتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ سے تصویر بنانے کے فرسودہ نظام کے بجائے سائنسی ترقی نے تصویر سازی کا ایک دقیق طریقہ اِیجاد کیا ہے لیکن جب شارع نے تصویر کو حرام قرار دیا ہے تو تصویر سازی کا خواہ کیسا ہی طریقہ اِیجاد کر لیا جائے، تصویر تو حرام ہی رہے گی۔'' (صفحہ ٩٤)