ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
|
مگر اُن کی متحرک تصاویر ویڈیو کیسٹ میں محفوظ ہیں، ایسی تصویر کو کوئی بھی پاگل عکس نہیں کہتا، صرف اِتنی سی بات کو لے کر کہ ویڈیو کے فیتہ میں ہمیں تصویر نظر نہیں آتی، تصویر کے وجود کا اِنکار کر دینا کھلا مغالطہ ہے۔'' (اَحسن الفتاوی ٨/٣٠٢) حضرت مولانا مفتی سعید اَحمد صاحب پالن پوری زید مجدہ شیخ الحدیث دارُالعلوم دیوبند شرحِ ترمذی میں تحریر فرماتے ہیں : ''اِسی طرح یہ دلیل کہ کیمرہ کا فوٹو ایک ظل( سایہ) ہے او رخو داِس کا سایہ نہیں ہے جیسا پانی میں سایہ پڑتا ہے بس اِس کو کیمرہ سے برقرار کر لیا جاتا ہے ، پس اِس میں کیا حرج ہے ؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ ہر ظل برقرار کرنے ہی سے تو صورت بنتی ہے اور صورت کا سایہ ہونا ضروری نہیں اور مطلق صورت سے فساد پھیلتا ہے، پس جب تک وہ ظل ہے اُس کے اَحکام اور ہیں او رجب اُس کو بر قرار کر لیا جائے تو وہ تصویر بن جاتا ہے اور حرام ہو جاتا ہے۔'' ( تحفة الالمعی ٥/٨٠) اِن اِقتباسات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی جاندار کا مطلق عکس محفوظ کرنا خواہ کسی سطح(نگیٹو) پر ہو یا بلاکسی سطح کے برقی ذرّات کی شکل میں ہو، اگر اُس میں ایسا اِستقلال و اِستقرار پیدا ہو جائے کہ جب چاہیں بلا ذی عکس کے اِس کو دیکھا جانا ممکن ہو تو یہ بھی تصویر سازی میں داخل ہے۔ ژ اہلِ فتویٰ حضراتِ اَکابر میں سے جن کی حیات میں حفظ ِعکس کی یہ جدید صورت سامنے آئی، اُنہوں نے بھی عکس کی مذکورہ حقیقت کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے اِس کو تصویر کہا اور ویڈیو کے فیتے میں محفوظ ہونے والے غیر مرئی عکس کو بھی تصویر قرار دیا، حالانکہ ویڈیو کے فیتے میں اِس کا نہ کوئی نام ونشان ہوتا ہے او رنہ کسی آلہ کی مدد سے اِس کو محسوس کیا جاسکتا ہے، ڈیجیٹل کیمرہ اِسی ویڈیو گرافی کا جدید اَیڈیشن ہے، فرق صرف اِس قدر ہے کہ ویڈیو کیسٹ میں موجود فیتہ کا مادّہ دُوسرا ہے اور حجم بھی بڑا ہے اور ڈیجیٹل کیمرے میں موجود چپ کا مادّہ دُوسرا ہے او رحجم بھی بہت کم۔ حضرت مولانا مفتی رشید اَحمد صاحب رحمة اللہ علیہ اِسی غیر مرئی شکل میں محفوظ عکس کے متعلق