Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

9 - 465
(١٤٨٢) وینعقد بلفظین یعبر باحدہما عن الماضی وبالاٰخر عن المستقبل مثل ان یقول زوّجنی فیقول زوّجتک )  ١    لان ہذا توکیل بالنکاح والواحد یتولی طرفی النکاح علی مانبینہ ان شاء اللہ 

ایک بات گزر چکی ہے ، اور یہاں نکاح ابھی ہوا نہیں ہے ، وہ تو آئندہ ہو گا تو اس کے لئے ماضی کا صیغہ کیسے استعمال کیا جا رہا ہے ؟ تو اس کا جواب دے رہے ہیں کہ ماضی کا صیغہ اگر چہ گزری ہوئی بات کے لئے آتا ہے لیکن جہاں ضرورت ہے اس کو پوری کر نے کے لئے شرعی طور پر انشاء کے لئے متعین کر دیا گیا ہے، اور یہاں ضرورت یہ ہے کہ بات پکی ہو جائے ۔ ۔ انشاء کا ترجمہ ہے ، آئندہ کسی ہو نے  والے عقد کو بتلانا ۔
ترجمہ : (١٤٨٢)  یا نکاح منعقد ہو گا ایسے دو لفظوںسے جن میں سے ایک کو تعبیر کیا گیا ہو ماضی سے اور دوسرے کو مستقبل سے ، مثلا یہ کہے ٫زوجنی ، اور جواب میں دوسرا کہے٫ زوجتک ، ۔ میں نے تیرا نکاح کرا دیا۔     
تشریح : نکاح منعقد ہو نے کے لئے دوسری شکل یہ ہے کہ ایجاب اور قبول دو نوںالفاظ ما ضی کے نہ ہو ں ، بلکہ ایک امر کا صیغہ ہو جسکو مستقبل کا صیغہ کہتے ہیں ، اور دوسرا فعل ماضی کا صیغہ ہو تب بھی نکاح منعقد ہو جائے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہو تی ہے کہ امر کا صیغہ ٫ زوجنی ، سے ایک آدمی کو وکیل بنا نا ہو تا ہے ، اور وہ جب زوجتک ، استعمال کر تا ہے تو یہ ماضی کا صیغہ ہو تا ہے ، تو گو یا کہ دو نوں جانب سے فعل ماضی ہی استعمال ہو ئے ، اس لئے نکاح ہو جائے گا ۔ کیونکہ فعل ما ضی سے بات پکی ہو گئی جو مقصود تھا۔    
وجہ: (١) اس حدیث میں ہے۔  عن سھل بن سعد قال جاء ت امرأة الی رسول اللہ  ۖ فقالت انی وھبت من نفسی  فقامت طویلا فقال رجل زوجنیھاان لم تکن لک بھا حاجة.....فقال زوجناکھا بما معک من القرآن   ۔ (بخاری شریف باب السلطان و لی لقول النبی  ۖ زوجناکھا بما معک من القرآن ، ص ٩١٨ ، نمبر ٥١٣٥) اس حدیث میں٫ زوجنیھا ، امر کا صیغہ استعمال ہو ہے ا اور ٫ زوجناک، فعل ما ضی کا صیغہ بھی استعمال کیا ہے (٢) اس حدیث میں بھی اس کا ثبوت ہے ۔  عن سھل بن سعد  أن امرأة عرضت نفسھا علی النبی  ۖ فقال لہ رجل یا رسول اللہ زوجنیھا فقال ما عندک ؟ ....  فقال النبی املکنا کھا بما معک من القرآن ۔( بخاری شریف، باب عرض المرأة نفسھا علی الرجل الصالح، ص ٧٦٧، نمبر ٥١٢١) اس حدیث میں٫ زوجنیھا ، امر کا صیغہ استعمال ہوا اور ٫املکناکھا، فعل ما ضی کا صیغہ بھی استعمال کیا ہے۔
 ترجمہ:  ١  اس لئے کہ یہ نکاح کا وکیل  بنانا ہے، اور ایک آدمی نکاح کے دو نوں طرف کا وکیل بن سکتا ہے ، جیسا کہ ان شاء اللہ بیان کریں گے۔ 
تشریح :  یہ دلیل عقلی ہے کہ ، زوجنی کا امر کا صیغہ ہے ، اور اس سے اصل میں ایک آ دمی کو دو نوں جانب سے وکیل بنا نا ہے ، اور نکاح میں ایسا ہو تا ہے کہ ایک ہی آدمی دو نوں طرف کا وکیل بن جائے ، اور جب دو نوں طرف کا وکیل بن گیا تو ایک ہی آدمی نے ماضی 

Flag Counter