(فصل فی الکفاء ة)
(١٥٦١) الکفاء ة فی النکاح معتبرة) ١ قال علیہ السلام الا لا یزوج النساء الا الاولیاء ولایزوجن الا من الاکفاء ٢ ولان انتظام المصالح بین المتکافیین عادة لان الشریفة تابی ان تکون مستفرشة للخسیس فلا بد من اعتبارہا بخلاف جانبہا لان الزوج مستفرش فلایغیظہ دناء ة الفراش
( کفو کا بیان )
ترجمہ : (١٥٦١) کفو نکاح میں معتبر ہے ۔
ترجمہ : ١ حضور علیہ السلام کے قول کی وجہ سے کہ عورتوں کی شادی نہ کرائے مگر اولیا اور اس کی شادی نہ کرائے مگر کفو سے ۔
تشریح : کفو کا ترجمہ ہے برا برا ہو نا مماثل ہو نا ، یہاں اس کا مطلب ہے کہ میاں بیوی دونوں خاندان کے اعتبار سے پیشے کے اعتبار سے اور عادات و اطوار کے اعتبار سے ایک جیسے ہوں اس کو ایک دوسرے کا کفو کہتے ہیں ۔ نکاح میں اس کی ضرورت ہے تاکہ میاں بیوی ایک دوسرے کے برابر ہوں تو کسی کو کمتری کا احساس نہ ہواور زندگی اچھی گزرے ، شریعت نے اس فطرت کی رعایت کی ہے ، البتہ کفو کے علاوہ میں شادی کر لی تو نکاح ہو جائے گا ، لیکن اولیاء کو اعتراض کر نے کا حق ہو گا اور قاضی کے سامنے اس مقدمے کو پیش کرے گا ، قاضی مناسب سمجھیں گے تو اس نکاح تو ڑ دیں گے اور مناسب نہیں سمجھیں گے تو بر قرار رہنے دیں گے ، قاضی کے فیصلے کے بغیر اولیا اس نکاح کو نہیں توڑ سکیں گے ۔
وجہ : (١)بیوی اور شوہر کی طبیعت ملنی ضروری ہے۔اور یہ کفو ہو تب ہی ہو سکتا ہے۔اس لئے کفو میں شادی کرنی چاہئے۔البتہ غیر کفو میں شادی کرے تو صحیح ہے (٢) عن جابر بن عبد اللہ قال قال رسول اللہ ۖ لا تنکحوا النساء الا الاکفاء و لا یزوجھن الا الاولیائ، و لا مھر دون عشرة دراھم ۔ ( دار قطنی ، باب کتاب النکاح ، ج ثالث ، ص ١٧٣، نمبر ٣٥٥٩ سنن بیہقی، باب اعتبار الکفائة ، ج سابع ،ص٢١٥، نمبر ١٣٧٦٠) اس حدیث میں ہے کہ کفو میں ہی شادی کرے ۔ (٣) عن عائشة قالت قال رسول اللہ ۖ تخیروا لنطفکم وانکحوا الاکفاء وانکحوا الیہم۔ (ابن ماجہ شریف،باب الاکفاء ص ٢٨١ نمبر ١٩٦٨ دار قطنی ، کتاب النکاح ج ثالث ص ٢٠٧ نمبر ٣٧٤٦) (٤)عن علی بن طالب ان رسول اللہ ۖ قال لہ یا علی ثلاث لا توخرھا الصلوة اذا آنت والجنازة اذا حضرت والایم اذا وجدت لھا کفوا ۔ (ترمذی شریف، باب ماجاء فی تعجیل الجنازة ص ٢٠٥ نمبر ١٠٧٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفو میں شادی کرنا چاہئے۔
ترجمہ : ٢ اور اس لئے کہ مصلحت کا انتظام دو برابر والوں کے درمیان عادة ہو تا ہے اس لئے کہ شریف عورت کی طبیعت انکار کرتی ہے کہ کمینہ مرد کی فراش بنے اس لئے عورت کی جانب سے کفو کا اعتبار کر نا ضروری ہے ، بخلاف عورت کی جانب میں کمی ہو تو