(کتاب الطلاق باب طلاق السنة)
(١٧٢٦)قال الطلاق علی ثلثة اوجہ حسن واحسن وبدعی فالاحسن ان یطلق الرجل امرأتہ تطلیقة واحدة فی طہر لم یجامعہا فیہ ویترکہا حتی تنقضی عدتہا ) ١ لان الصحابة کانوا یستحبون ان لا یزیدوا فی الطلاق علی واحدة حتی تنقضی العدة
( کتاب الطلاق )
(باب طلاق السنة)
ضروری نوٹ: عورت کو نکاح سے الگ کرنے کو طلاق کہتے ہیں۔]١[اس کا ثبوت اس آیت سے ہے۔الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان۔ (آیت ٢٢٩ ،سورة البقرة ٢)]٢[ یا ایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن واحصوا العدة ۔ (آیت ١ ،سورة الطلاق ٦٥) اور حدیث میں ہے ]٣[ عن ابن عمر عن النبی ۖ قال ابغض الحلال الی اللہ عزوجل الطلاق ۔ (ابوداؤد شریف ، باب فی کراہیة الطلاق، ص ٣٠٣ ،نمبر ٢١٧٨) ان آیتوں اور حدیث سے طلاق دینے کا ثبوت ہوا۔
ترجمہ: (١٧٢٦) طلاق کی تین قسمیں ہیں۔حسن اور احسن اور بدعت۔
تشریح : طلاق دینے کے تین طریقے ہیں]١[ احسن ]٢[ حسن ]٣[ بدعی۔ ان کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
ترجمہ: ]١[ احسن طلاق یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق دے ایسے طہر میں کہ جس میں اس سے وطی نہ کی ہو۔پھر اس کو چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ صحابہ مستحب سمجھتے تھے کہ ایک طلاق سے زیادہ نہ دے یہاں تک کہ عدت گزر جائے ۔
تشریح : یوں تو طلاق نہیں دینی چاہئے لیکن اگر مجبوری میں دینی ہی پڑے تو اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ جس طہر میں صحبت نہ کی ہو اس طہر میں ایک طلاق دے کر چھوڑ دے۔یہاں تک کہ عدت گزار کر خود بائنہ ہوجائے۔ صحابہ اسی کو مستحب سمجھتے تھے ، اس لئے یہ طریقہ احسن ہے ۔
وجہ: (١)احسن اس لئے کہا کہ عدت کے اندر رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے (٢) صاحب ہدایہ کا اثر یہ ہے ۔عن ابراہیم قال کانوا یستحبون ان یطلقھا واحدة ثم یترکھا حتی تحیض ثلاث حیض۔ (مصنف ابن ابی شیبة ٢ ما یستحب من طلاق السنة وکیف ھو ؟ ج رابع ،ص٨ ٥ ، نمبر١٧٧٣٧ مصنف عبد الرزاق ، باب وجہ الطلاق وھو طلاق العدة والسنة، ج سادس، ص٢٣٨،نمبر١٠٩٦٩) اس اثر میں ہے کہ صحابہ یہ مستحب سمجھتے تھے کہ ایک طلاق دیکر چھوڑ دیا جائے تاکہ تین حیض گزار کر بائنہ ہو