(١٦٢٧) فان دخل بہا فلہا مہر مثلہا ولایزاد علی المسمی ) ١ عندنا
(نکاح صحیح اور نکاح فاسد میں یہ فرق ہے ۔)
نکاح صحیح کا حکم
نکاح فاسد کا حکم
١
٢
٣
٤
وطی سے پہلے تفریق ہو تو آدھا مہر لازم ہو گا
خلوت صحیحہ وطی کے درجے میں ہے
دخول سے مہر مسمی، یا مہر مثل لازم ہو گا
نکاح کے وقت سے نسب ثابت ہو گا
وطی سے پہلے تفریق ہو تو کچھ لازم نہیں ہو گا
خلوت صحیحہ وطی کے درجے میں نہیں ہے
دخول سے دونوں میںسے جو کم ہو وہ لازم ہو گا
دخول کے وقت سے نسب ثابت ہو گا
ترجمہ : (١٦٢٧) اور اگر اس سے صحبت کرلے تو عورت کے لئے مہر مثل ہوگا اور متعین مہر پر زیادہ نہیں کیا جائے گا۔
ترجمہ : ١ ہمارے نزدیک ۔
تشریح نکاح فاسد میں عورت سے صحبت کرے تو عورت کے لئے مہر مثل اور مسمی میں سے جو کم ہو گا وہ ملے گا ]١[مثلا آپس میں پانچ سو درہم مہر طے کیا ہے اور مہر مثل چھ سو درہم ہے تو پانچ سو درہم ہی دیئے جائیںگے چھ سو درہم نہیں دیئے جائیںگے۔]٢[ اور اگر آپس میں پانچ سو طے ہوا ہے اور مہر مثل چار سو ہے تو چار سو ہی دلوا یا جائے گا ۔
وجہ :(١) مسمی تو اس لئے نہیں دیا جائے گا کہ نکاح فاسد کی وجہ سے مسمی کا اعتبار نہیں ہے اس لئے مہر مثل کم ہو تو مہر مثل دلوا یا جائے گا ۔ اور مسمی کم ہو تو وہ اس لئے دلوایا جائے گا کہ عورت کم پر خود راضی ہو گئی ہے ۔ (٢) اس حدیث میں ہے کہ نکاح باطل یعنی نکاح فاسد میں وطی کرے گا تب مہر لازم ہو گا ، کیونکہ اس نے مال یعنی بضع وصول کیا ۔ عن عائشة قالت قال رسول اللہ ایما امرأة نکحت بغیر اذن موالیھا فنکاحھا باطل ثلاث مرات فان دخل بھا فالمھر لھا بما اصاب منھا فان تشاجروا فالسلطان ولی من لاولی لہ۔ (ابو داؤد شریف ، باب فی الولی ص ٢٩١ نمبر ٢٠٨٣)اس حدیث میں ہے کہ دخول کرے گا تو عورت کے بضع کو لینے کی وجہ سے مہر لازم ہو گا ۔(٥) اس اثر میں بھی ہے ۔عن الشعبی قال : عمر یفرق بینھما و لھا الصداق بما استحل من فرجھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبة، ١٦١ ماقالوا فی المرأة تزوج فی عدتھا الھا الصداق ام لا ؟ ،ج رابع، ص٤، نمبر ١٧١٨٧ مصنف عبد الرزاق ، باب نکاحھا فی عدتھا ،ج سادس ،ص ١٦٧ ،نمبر١٠٥٨٢ )اس اثر میں ہے کہ وطی کر نے کی وجہ سے مہر لازم ہوا جس کا مطلب یہ ہوا کہ نکاح کر نے کی وجہ سے مہر لازم نہیں ہوا ۔
لغت: لا یزاد علی المسمی : کا مطلب یہ ہے کہ مہر مثل مسمی سے زیادہ ہو تو زیادہ لازم نہیں ہو گا ، مسمی ہی لازم ہو گا ، کیونکہ