(فصل فی اضافة الطلاق الی الزمان)
(١٧٧٤) ولو قال انت طالق غدا وقع علیہا الطلاق بطلوع الفجر ) ١ لانہ وصفہا بالطلاق فی جمیع الغد وذلک بوقوعہ فی اول جزء منہ ٢ ولو نوی بہ اٰخر النہار صدق دیانة لا قضاء لانہ نوی التخصیص فی العموم وہو یحتملہ وکان مخالفا للظاہر
(فصل فی اضافة الطلاق الی الزمان )
ضروری نوٹ : اس فصل میں عموما الفاظ پر بحث کئے گئے ہیں کہ کس لفظ کا کیا معنی کیا ہے اور اس سے کس وقت طلاق واقع ہو گی اس لئے حدیث یا اثر کہیں کہیں آئے گی۔
ترجمہ : (١٧٧٤) اور اگر کہا کہ تجھے طلاق ہے کل تو اس پر طلاق واقع ہوگی صبح صادق کے طلوع ہونے سے۔
ترجمہ : ١ اس لئے کہ عورت کو کل کے تمام حصے میں طلاق سے متصف کیا ہے ، اور یہ کل اول جز میںواقع ہو نے سے ہو گا ۔
تشریح : کسی نے٫ انت طالق غدا ،کہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کل کا پورا دن یعنی صبح سے شام تک وہ طلاق والی ہو ، اور یہ اسی صورت میں ہو گا جبکہ صبح کے وقت ہی طلاق واقع کریں ، البتہ پورے دن میں کسی وقت بھی طلاق کا احتمال ہے اس لئے دوسرے وقت کی نیت کرے گا تو دیانتا اس کی بات کی تصدیق کی جائے گی۔
وجہ: (١) کل کا مطلب یہ ہے کہ عورت کل کے پورے حصے میں طلاق والی ہو اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جبکہ صبح کے اول جز میں طلاق واقع کی جائے ۔(٢)اثر میں ہے۔ عن ابراہیم قال : من وقت فی الطلاق وقتا فدخل الوقت وقع الطلاق ۔(مصنف ابن ابی شیبة ، باب من قال : لا یطلق حتی یحل الاجل ، ج رابع ، ص ٧٢، نمبر ١٧٨٨٦ مصنف عبد الرزاق ، باب الطلاق الی اجل ، ج سادس، ص ٣٣٠، نمبر ١١٣٥٢)اس اثر میں ہے کہ اگر طلاق کو وقت پر معلق کیا تو جب وقت آئے گا اس وقت طلاق واقع ہو جائے گی ۔ (٣) اور اس اثر سے معلوم ہو تا ہے کہ کوئی نیت نہ ہو تو اول وقت میںطلاق ہو گی ۔عن الثوری قال فی رجل قال لامرأتہ اذا حضت حیضة فانت طالق او قال متی حضت فانت طالق ، قال : اما التی قال اذا حضت فانت طالق ، فاذا دخلت فی الدم طلقت( مصنف عبد الرزاق ، باب الطلاق الی اجل ، ج سادس، ص ٣٣٠، نمبر ١١٣٥٢) اس اثر میں ہے کہ حیض پر طلاق معلق کیا ہو تو خون شروع ہو تے ہی طلاق واقع ہو گی ، اسی طرح کل پر طلاق معلق کیا ہو تو کل کی صبح داخل ہو تے ہی طلاق واقع ہو گی ۔
ترجمہ : ٢ اور اگر دن کے آخری حصے کی نیت کی تو دیانة تصدیق کی جائے گی، قضاء نہیں اس لئے کہ عموم میں تخصیص کی نیت کی ہے اور اس کا احتمال رکھتا ہے ، اور یہ ظاہر کا مخالف ہے ۔