(باب ایقاع الطلاق)
(١٧٥٠)الطلاق علی ضربین صریح وکناےة فالصریح قولہ انت طالق ومطلقة وطلقتک فہذا یقع بہ الطلاق الرجعی ) ١ لان ہذہ الالفاظ تستعمل فی الطلاق ولا تستعمل فی غیرہ فکان صریحا وانہ یعقب الرجعة بالنص
( طلاق صریح اور طلاق کنایہ کا بیان )
ضروری نوٹ : پہلے باب طلاق احسن ، طلاق حسن ، اور طلاق بدعی کا بیان تھا ، اس میں یہ ہے کہ صریح طلاق دینے کا طریقہ کیا ہے اور کنایہ طلاق دینے کا طریقہ کیا ہے اور کس میں نیت کی ضرورت پڑے گی اور کس میں نیت کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔
ترجمہ: (١٧٥٠) طلاق دو قسموں پر ہے صریح اور کنایہ،پس صریح جیسے یوں کہے تجھے طلاق ہے،تم طلاق دی ہوئی ہے ،میں نے تمہیں طلاق دیدی،پس اس سے طلاق رجعی واقع ہوگی۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ یہ الفاظ طلاق میں استعمال ہو تے ہیں اور ا س کے علاوہ میں استعمال نہیں ہو تے اس لئے یہ الفاظ صریح ہوئے ، اور آیت کی وجہ سے اس کے بعد رجعت ہو گی ۔
تشریح: طلاق دینے کے دو طریقے ہیں۔ایک صریح کہ جس سے صاف معلوم ہو کہ شوہر طلاق دینا چاہتا ہے۔اور دوسرا طریقہ کنایہ کا ہے۔کنایہ کی شکل یہ ہوتی ہے کہ شوہر ایسے الفاظ استعمال کرے جن کے دومعنی ہوں ۔ایک معنی کے اعتبار سے طلاق نہ ہوتی ہو اور دوسرے معنی کے اعتبار سے طلاق واقع ہو جاتی ہو۔اس شکل میں طلاق کی نیت کرے گا،یا حالت ایسی ہو جس سے طلاق واقع ہونے کا تقاضا ہو تو اس سے طلاق واقع ہوگی۔اوپر کے تینوں الفاظ صریح ہیں۔ کیونکہ ان سے طلاق کا صاف پتہ چلتا ہے۔اور قرآن میں بھی طلاق کے لئے یہی لفظ استعمال ہوا ہے۔
وجہ: (١) الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ۔ (آیت ٢٢٨ ،سورة البقرة ٢) اس آیت سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ طلقت ، طالق اور مطلقة صریح ہیں۔اس لئے کہ قرآن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔دوسری بات معلوم ہوئی کہ اس لفظ کے استعمال کرنے کے بعد رجعت کر سکتا ہے۔کیونکہ قرآن نے کہا کہ اس کے بعد بیوی کو رکھ بھی سکتا ہے۔اور احسان کے ساتھ چھوڑ بھی سکتا ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ رجعت کر سکتا ہے (٢) حضرت عبد اللہ بن عمر نے طلاق صریح دی تو ایک طلاق رجعی واقع ہوئی۔سمعت ابن عمر قال طلق ابن عمر امرأتہ وھی حائض فذکر عمر للنبی فقال لیراجعھا قلت تحتسب ؟قال فمہ؟ ۔ (بخاری شریف ، باب اذا طلقت الحائض تعتد بذلک الطلاق، ص ٧٩٠، نمبر ٥٢٥٢ مسلم شریف ، باب تحریم